سیارچے خلائی تحقیق میں اتنی اہمیت کے حامل کیوں؟
29 اکتوبر 2023خلائی تحقیق میں فی الحال سیارچوں یا ایسٹی رائڈز کا بہت چرچا ہے۔ ایک جانب ناسا نے ایسٹی رائڈ سائیکی کی جانب اپنا مشن روانہ کیا ہے تو دوسری طرف ایسٹی رائڈ بینو سے حاصل ہونے والے سیمپل بھی زمین پر پہنچ چکے ہیں اور ابتدائی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ان میں زندگی کے تقریبا تمام بنیادی اجزا ء موجود ہیں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خلائی تحقیقی ماہرین خلا میں آوارہ پھرتے چھوٹے بڑے سائز کے ان اجسام میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
فوز صدیقی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس سائنسز کراچی میں محقق اور طالب علم ہیں۔ ان کی تحقیق کا مرکز ایسٹی رائڈز ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سپیس سائنسز کے طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے سیکھا ہے کہ ایسٹی رائڈز پر تحقیق سے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں جاپانی سپیس ایجنسی کا مشن ہایابوسا اور ناسا کا مشن اوسیرکس ریکس اس کی مثال ہیں۔ ان مشنوں کے ذریعے سائنسدانوں کو زمین پر زندگی کی ابتدا اور زندگی کے بنیادی اجزاء کے متعلق انتہائی اہم معلومات ملی ہیں۔
فوز کے مطابق خاص طور پر اب انسان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے، جس سے وہ کسی سیارچے تک رسائی حاصل کر کے اس کے سیمپل حاصل کر سکتا ہے، ''جیسے کہ ابھی ناسا کو ایسٹی رائڈ بینو کے سیمپل موصول ہوئے ہیں۔ ان نمونوں کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے اور ابتدائی معلومات کے مطابق ان میں زندگی کے تمام بنیادی اجزاء موجود ہیں۔‘‘
سیارچے کیا ہیں؟
ایسٹی رائڈ کا مطلب ستارہ ہے۔ بنیادی طور پر ایسٹی رائڈز یا سیارچے سیارے ہی ہوتے ہیں مگر ان کا سائز سیاروں یا ڈوارف پلینٹ کی نسبت کم ہوتا ہے۔
اگرچہ دیکھنے میں یہ ستارے ہی لگتے ہیں مگر ستاروں کے برعکس یہ آزادانہ گھوم سکتے ہیں۔ ان کی اپنی روشنی نہیں ہوتی اس لیے فلکیاتی اصطلاح میں انہیں "پلینٹائڈ" بھی کہا جاتا ہے۔
دراصل سیارچے وہ چٹانیں یا بڑے سائز کے پتھر ہیں، جو نظام ِ شمسی کی تشکیل کے وقت ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔ ان کا زیادہ تر حصہ کاربن اور دھاتوں کے اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن ان کا حجم بہت کم ہوتا ہے اس لیے یہ اکھٹے ہو کر سیاروں میں ڈھل نہیں پاتے۔
ہمارے نظام شمسی میں زیادہ تر سیارچے مریخ اور مشتری کے درمیان پائے جاتے ہیں، جنہیں "ایسٹی رائڈ بیلٹ" کہا جاتا ہے۔ ان میں جو سیارچے گردش کرتے ہوئے زمین کے قریب آجائیں انہیں فلکیات کی اصطلاح میں "نیئر ارتھ ایسٹی رائڈز" کہتے ہیں۔
ساخت اور اجزاء کی مناسبت سے سیارچوں کو ایس (سادہ پتھر)، سی (کاربن کے مرکبات) اور ایم (میٹلز، دھاتوں) کے گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ناسا نے حال ہی میں ایسٹی رائڈ سائیکی کی جانب ایک مشن روانہ کیا ہے، جو اب تک دریافت ہونے والا واحد ایم یعنی دھاتی سیارچہ ہے۔
سیارچے اتنی اہمیت کے حامل کیوں ہیں؟
خلائی تحقیقی ماہر ڈونلڈ یومینز کے مطابق سیارچے ہمارے نظام شمسی کے سیاروں کی تشکیل کے وقت بچ جانے والے ٹکڑے ہیں، اس وقت زمین سمیت دیگر سیاروں کی اندرونی کور تشکیل پا رہی تھیں۔
ڈونلڈ مزید بتاتے ہیں کہ یہ سیارچے زمین سے وقتا فوقتا ٹکرانے والے میٹیورائٹ کا سورس بھی ہیں۔ ان میٹیورائٹ پر تحقیق سے سائنسدانوں کو زمین کی اندرونی ساخت اور طبعی و کیمیائی خواص کے متعلق اہم معلومات ملی ہیں۔
سیارچوں سے زمین پر زندگی کی ابتدا کے متعلق کیا معلومات ملتی ہیں؟
ڈونلڈ یو مینز کے مطابق سائنسدان یقین رکھتے ہیں کہ زمین پر زندگی کے بنیادی اجزاء اور متغیر نامیاتی مرکبات کسی میٹیورائٹ یا دم دار ستارے کے زمین سے تصادم کی صورت میں یہاں منتقل ہوئے ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کو سمجھنے کے لیے سیارچوں پر تحقیق ضروری ہے۔ ناسا اور دیگر خلائی تحقیقی ادارے زمین کے قریب آجانے والے نیئر ارتھ ایسٹی رائڈز پر ایک طویل عرصے سے تحقیق میں مصروف ہیں، جس کے لیے سیارچوں کی جانب مشنز بھی روانہ کیے جا رہے ہیں۔
ڈونلڈ بتاتے ہیں کہ جو سیارچے زمین کے قریب مدار میں آجائیں ان کا زمین سے ٹکراؤ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ماضی بھی ہوچکا ہے، جب 30 جون 1908ء کو ٹنگسکا کے مقام پر 200 سے 600 فٹ حجم کا ایک سیارچہ زمین سے اوپر فضا میں پھٹ گیا تھا۔ اس سے ریکٹر سکیل پر 5 درجے کا زلزلہ ریکارڈ ہوا اور اطراف میں 200 کلومیٹر تک جنگلات جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔
ڈونلڈ بتاتے ہیں کہ یہ سائبیریا میں دریائے ٹنگسکا کے قریب غیر آباد علاقہ تھا۔ اس وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ مگر سائنسدان یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کسی وقت گنجان آبادی والے علاقے میں بھی ہو سکتا ہے، جو کسی بڑی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
کسی ممکنہ تباہی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
ناسا اور دیگر خلائی ایجنسیوں کے ماہرین ایک طویل عرصے سے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زمین کے کسی ایسٹی رائڈ سے ممکنہ ٹکراؤ کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ ستمبر 2022ء میں ناسا نے خلا میں ایک تجربے کے دوران انتہائی مہارت اور کامیابی کے ساتھ اپنا ایک خلائی جہاز ایک سیارچے سے ٹکرا کر تباہ کر دیا تھا۔
خلا میں موجود ایک بڑے پتھر سے خلائی جہاز ٹکرانے کا یہ تجربہ زمین سے تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ کلومیٹر دور کیا گیا ہے۔ جس سیارچے کو خلائی جہاز نے ہدف بنایا اس کو ڈیمورفوس کا نام دیا گیا تھا جبکہ اس مشن کو ڈارٹ مشن کہا جاتا ہے۔
اس کامیاب ٹکراؤ سے ماہرین کو یہ معلومات ملیں کہ زمین سے کسی ممکنہ ٹکراؤ کو روکنے کے لیے سیارچے کی سمت اور رفتار کو کس حد تک تبدیل کرنا ضروری ہے۔
سائیکی مشن منفرد کیوں ہے؟
نکولہ فوکس ناسا میں سائیکی مشن ڈائیریکٹوریٹ کے ایڈمنسٹر ہیں۔ نکولہ کے مطابق جدید ترین ٹیکنالوجی دستیاب ہونے کے باوجود سائنسدان ابھی تک زمین کی انتہائی اندرونی دھاتی سطح کے متعلق مکمل معلومات حاصل نہیں کر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ سائیکی ایک مکمل دھاتی سیارچہ ہے، جس پر تحقیق سے ماہرین کو زمین کی دھاتی کور کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ناسا کا سپیس کرافٹ 2029ء تک اس سیارچے کے مدار میں داخل ہو کر اپنی تحقیق کا آغاز کرے گا۔
فوز صدیقی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سائیکی مشن ایسٹی رائڈز کی طرف بھیجے گئے دیگر مشنز سے بالکل مختلف ہے اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس مشن سے پرائیویٹ سیکٹر کے خلائی تحقیق میں معاونت کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس مشن کے اثرات فلکیاتی تحقیق سے بڑھ کر ہیں۔ دنیا بھر میں خلائی تسخیر ایک ابھرتا ہوا نیا میدان ہے، جس میں نجی کمپنیوں کی شمولیت سے یہ ایک منافع بخش کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ یوں دنیا بھر کی معیشتیں از سر نو تشکیل پا رہی ہیں اور عالمی مفادات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
فوز مزید کہتے ہیں کہ ایسٹی رائڈز پر بڑھتی تحقیق نے کچھ نئے مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔ خلائی سائنس کے ایک طالب علم کی حیثیت سے وہ سمجھتے ہیں کہ نئے خلائی قوانین اور ان کا موثر اطلاق انتہائی ضروری ہے۔ ان کے بقول لامحالہ یہ عمل عالمی سیاست میں تبدیلی اور نئے بلاکس کی تشکیل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔