1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی جماعتوں میں اختلافی آوازیں

عبدالستار، اسلام آباد
23 جنوری 2023

پاکستان میں کچھ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے سیمینار کے سلسلوں نے نہ صرف ایک نئی پارٹی کی تشکیل کی افواہوں کو ہوا دی ہے بلکہ اس کی وجہ سے سیاسی عدم رواداری پر بھی بحث کی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Masm
Pakistan Miftah Ismail
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کوسیاسی جماعتوں کے اجلاسوں میں کھل کر بولنے اور اختلاف رائے رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لیے انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے دوسرے راستے تلاش کرنا پڑتے ہیں، جس میں ان میں اور جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ناراضگی اور دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ نون کے رہنما و سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، پی پی پی کے رہنما مطصفٰی نواز کھوکر اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق رہنما حاجی لشکر رئیسانی کی طرف سے ملک کے طول وعرض میں ملکی مسائل پر سیمینار کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس حوالے سے پہلا سیمینار کوئٹہ میں منعقد کیا گیا۔

اختلافی آوازوں کی حالیہ تاریخ

مفتاح اسماعیل کے حوالے سے حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز نے بہت سخت زبان استعمال کی تھی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اس لیگی رہنما کو اسحاق ڈار نے بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا جب کہ شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بھی یہ چہ مگوئیاں ہیں کہ وہ اپنی پارٹی سے کئی امور پر شدید اختلافات رکھتے ہیں۔ مصطفٰی نواز کھوکر اپنی سینیٹ کی نشست سے استعفٰی دے چکے ہیں اور اکثر وبیشتر پی ڈی ایم کی حکومت پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔

اتحادی جماعتوں کو حزب اختلاف کی پرکشش پیشکش

کچھ برس سے سابق وزیر داخہ چوہدری نثار علی خان بھی اپنی پارٹی سے ناراض ہیں اور انہوں نے گزشتہ انتخابات بھی آزاد حیثیت میں لڑے تھے اور اب بھی انہوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعیت علما اسلام کے بھی کئی سرکردہ رہنما مولانا فضل الرحمٰن سے ناراض ہیں، جن میں سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی، سابق رکن قومی اسمبلی مولانا گل نصیب اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد سمیت کئی رہنما شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین، فیصل وواڈا، علیم خان اور محمد سرور سمیت مرکزی رہنما پارٹی سے ناراض ہوئے بیھٹے ہیں۔

ناراضگی اور نظریات

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں عدم جمہوریت کی بنیاد پر جماعتوں کے مرکزی رہنما اکثر وبیشتر اپنی قیادتوں سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ کچھ کی یہ ناراضگی اصولی ہوتی ہے جب کچھ کی پسند نا پسند یا ذاتی مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر مختار باچا کا کہنا ہے کہ ماضی میں سیاسی افق پر نظریاتی پارٹیاں جلوہ گر تھیں، اس لیے ناراضگی اور اختلافات اصولوں اور نظریات پر ہوتے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''معراج محمد خان، حنیف رامے اور مختار رانا نے بھٹو سے نظریات کی بنیاد پر اختلاف کیا جب کہ ممتاز بھٹو اور غلام مصطفے کھر کے اختلافات پسند نا پسند یا ذاتی نوعیت کے تھے۔‘‘

سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کی مخالف کیوں؟

مختار باچا کے مطابق چوہدری اعتزاز احسن کے بھی پی پی پی سے اختلافات رہے۔ ''لیکن اعتزاز کوئی نظریاتی آدمی نہیں ہیں اور ان کے اختلافات کی بنیاد بھی ذاتی ہے۔ ان دنوں سیاسی جماعتوں میں زیادہ تر اختلافات سیاسی مفادات کے لیے ہی ہوتے ہیں۔‘‘

تخلیق پاکستان کے بعد سیاسی اختلافات

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں عدم رواداری کا فقدان شروع سے ہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواب افتخاز حسین ممدوٹ کو لیاقت علی خطالبان اقتدار کی راہداریوں میں: ن لیگ خاموش، قوم پرستوں کی مخالفتان پسند نہیں کرتے تھے اور وہ دولتانہ کو لے کر آنا چاہتے تھے جب کہ میاں افتخار الدین نے مسلم لیگ سے اختلاف اصولی اور نظریاتی بنیادوں پر کیا۔ میاں افتخار نے مسلم لیگ پر الزام لگایا تھا کہ وہ زرعی اصلاحات کے وعدے سے پھر رہی ہے اور امریکی کیمپ میں جارہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر توصیف کے مطابق موجودہ دور میں مصطفٰی نواز کھوکر کا اختلاف اور ناراضگی بالکل اصولی ہے۔ ''میرے خیال میں انہوں نے اصولی سیاست کی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر مختلف مسائل پر ایک سیاسی پوزیشن لی، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی ان سے ناراض ہوئی اور اختلافات بڑھے۔‘‘

بچہ بچہ کٹ مرے گا، ایک نیا طوفان

عدم رواداری کا تاثر غلط ہے

تاہم سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ جماعتیں اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب میں وزیر خزانہ تھا تو اسحاق ڈار صاحب نے کھل کر ہمارے خلاف ایک پوزیشن لی۔ اسی طرح جب میں شاہد خاقان کے دور میں وزیر تھا، اس وقت بھی مختلف امور پر اختلافی نکات اٹھائے جاتے تھے۔ ہم بھی وہاں اپنی رائے رکھتے تھے۔‘‘

اشاروں پر اختلافات

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی میں عموما اختلاف ہوتے ہیں لیکن کچھ اختلافات پارٹی رہنما غیر مرئی قوتوں کے اشاروں پر بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق چوہدری اعتزاز اور چوہدری نثارعلی خان کے اپنے پارٹیوں سے اختلافات اشاروں کا نتیجہ تھے۔ ''اس کے علاوہ سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے زرداری سے اختلافات بھی کسی کے اشارے کا نتجہ تھے۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور آفاق احمد کے درمیان اختلافات بھی غیر مرئی قوتوں کے اشاروں کی وجہ سے ہوئے تھے۔‘‘