سید بابر علی کے لیے منفرد بین الااقوامی اعزاز
7 اکتوبر 2022سید بابر علی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنسز کے لیے منتخب ہونا یقینا ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ان سے پہلے مارٹن لوتھر کنگ، بینجمن فرینکلن، نیلسن مینڈیلا، سٹیفن ہاکنگ اور آئن سٹائن جیسی شخصیات کو اس اکیڈیمی کے لیے منتخب کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں کاروبار
سید بابر علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 1965ء سے 1968ء کے دوران حکومت ِپاکستان صنعتوں کی نج کاری کے لیے کافی متحرک تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس موقع پر وراثت میں ملی معقول رقم کو بہترین انداز میں استعمال میں لاتے ہوئے انہوں نے یونیلیور اور کوکاکولا جیسی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں مشترکہ کاروبار کا آغاز کیا۔
ان کے بقول ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک مرتبہ پھر صنعتوں کو قومیانے کا آغاز کر دیا گیا، جس کے باعث ان کے خاندان کو پانچ انتہائی کامیاب منصوبوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بابر علی کے مطابق یہ ایک بڑا دھچکا تھا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بھٹو کی پیشکش پر ایک فرٹیلائزر پلانٹ کے منصوبے کو لیڈ کرنے لگے۔
سید بابر علی 30 جون 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ سید بابر علی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ( لمز) کے بانی پرو وائس چانسلر، ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے سابق صدر اور نیسلے پاکستان سمیت کئی معروف کمپنیوں کے بانی ہیں۔ سید بابر علی پاکستان میں اعلی تعلیم کے فروغ اور ترویج کی اپنی کوششوں کی وجہ سے بھی ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
ایک کامیاب بزنس مین تعلیم کے شعبے کی طرف کس طرح آیا؟
سید بابر علی نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 1947ء میں مشی گن یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ پھر 1973ء میں انہیں ہارورڈ بزنس سکول میں پڑھنے کا موقع ملا، جہاں انہیں اندازہ ہوا کہ بزنس اور مینجمنٹ کی تعلیم سرکاری اور نجی شعبے کو چلانے کے لیے کتنی اہم ہے۔
بابر علی کے مطابق اس دور میں پاکستان میں اچھے تربیت یافتہ مینیجرز کی بھی قلت تھی۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ادارے پیکج لمیٹڈ میں ملازمین کی تربیت کے لیے پروگرام کا آغاز کیا۔ یہ پروگرام ان کی توقع سے زیادہ سود مند ثابت ہوا اور اس ادارے کے تربیت یافتہ افراد کو یورپ میں باآسانی ملازمت ملنے لگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ بلاشبہ یہ ان کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی، جس سے انہیں پاکستان میں اعلی تعلیم کے لیے ایک بزنس سکول بنانے کی تحریک ملی۔
لمز کے بعد تعلیم کے کن منصوبوں پر کام کیا؟
سید بابر علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انہوں نے ہارورڈ بزنس سکول کی فیکلٹی کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد لمز کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کیا، جس کے قیام کے لیے انہوں نے حکومت پاکستان سے فنڈز یا زمین نہیں لی۔ بابر علی کے مطابق انہوں نے خط لکھ کر یو ایس ایڈ کو اس منصوبے کے لیے فنڈز جاری کرنے پر راضی کیا اور یوں 1984ء میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے بزنس سکول کا قیام عمل میں آیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل میں دنیا بھر سے ان کا کاروباری اثر و رسوخ بھی کام آیا۔ بعد ازاں لمز کو لاء سکول، انجینیئرنگ، ایجوکیشن، لبرل آرٹس کے شعبوں تک وسعت دی گئی۔ بابر علی کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور وہ ایک کے بعد دوسرے تعلیمی منصوبے پر کام کرتے گئے۔ علی انڈسٹریل ٹیکنیکل سکول، علی انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، لاہور سکول آف اکنامکس جیسے منصوبوں میں بابر علی معاونت کر چکے ہیں۔
بابر علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہائر ایجوکیشن سے متعلق ٹاسک فورس میں ان کی شمولیت سے بھی بہت فائدہ ہوا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام اسی ٹاسک فورس کی کوششوں کا ثمر تھا، جس نے ملک میں اعلی تعلیم کی ترویج اور معیار کو بر قرار رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
سید بابر علی کے ساتھی کیا کہتے ہیں؟
ریکٹر لمز ڈاکٹر شاہد حسین نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سید بابر علی بلا شبہ ایک انسپائریشن ہیں، جو ناقابل یقین حد تک متحرک اور ہر کسی کی مشاورت کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں، ''خاص طور پر نوجوان نسل کو ملک و قوم کی خدمت کی جانب راغب کرنے کا جتنا جذبہ سید بابر علی میں ہے وہ میں نے آج تک کسی اور شخصیت میں نہیں دیکھا۔‘‘
ڈاکٹر صبیح انور سید بابر علی سکول آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈین اور خوارزمی سائنس سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں، جو پاکستان میں سائنسی علوم کی ترویج کے لیے کوشاں ہے۔ ڈاکٹر صبیح انور نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں نوجوانوں نے سید بابر علی کے لگائے ہوئے پودوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر زندگی کے گُر سیکھے اور زندگی کی حقیقت کو جانا ہے، ''ان نوجوانوں نے ادبار اور مفلسی سے ڈرنے کی بجائے ترقی اور امید کی روشنی کے چراغ جلائے اور جہالت کی دلدل سے نکل کے تعلیم کے گلستانوں کی آبیاری کی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صبیح انور کے مطابق انہیں سید بابر صاحب کی زندگی کا یہ پہلو بہت پسند ہے کہ وہ قوم کے درد کے مداوا کے لیے افراد سے بڑھ کر اداروں کی ترقی اور عروج کی طرف توجہ دیتے ہیں، ''پاکستان کے وہ علاقے، وہ نسلیں اور قبیلے جو زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، وہ 96 برس کی عمر میں بھی بابر علی کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔‘‘
امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنسز کیا ہے؟
امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنسز کا قیام 1780ء میں عمل میں آیا تھا۔ اسے دنیا کی قدیم ترین اور معزز ترین سوسائٹیز میں شمار کیا جاتا ہے، جو دنیا بھر میں اپنے انتہائی قابل اراکین کے انتخاب کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔
بزنس، تعلیم، سماجی سرگرمیوں، خدمت خلق، سائنس کا معاشرتی بہتری میں کردار اور اسی طرح کی دیگر غیر معمولی خدمات پر یہ اکیڈیمی دنیا بھر سے اپنے ممبران کا انتخاب کرتی ہے۔ اس کے ممبران قومی اور بین الاقوامی سطح پر پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سید بابر علی کی تعلیم، سماجی بہبود اور صنفی و معاشرتی تفاوت کے سدباب کے لیے کی گئی ان تھک کاوشوں پر انہیں امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنس کی 2022ء کی کلاس میں شامل کیا گیا ہے۔ انہیں یہ اعزاز "بزنس، کارپوریٹ، اور انسانیت کے خادم رہنما " کی کیٹیگری میں دیا گیا ہے۔ 96 سالہ سید بابر علی دنیا بھر سے مختلف فیلڈز سے 270 چینج میکرز کے ساتھ اس کلاس کو جوائن کر رہے ہیں۔ وہ نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کے بعد دوسرے پاکستانی ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو 1971ء میں اس اکیڈیمی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔