شام سے متعلق مجوزہ جنیوا کانفرنس کا اعلان
20 اکتوبر 2013اس بات کا اعلان آج عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے کئی ہفتوں سے اس اجلاس کے انعقاد کے حتمی فیصلے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کے بعد کیا۔
شام کے بحران کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ساتھ شام میں شورش اور تشدد کے واقعات مسلسل جاری ہیں۔ آج شام کے ایک مرکزی شہر حما میں ایک خود کُش بم حملہ آور نے دھماکا خیز مادے سے لیس ٹرک کو ایک حکومتی چیک پوائنٹ کے سامنے اڑا دیا۔ سرگرم عناصر اور ریاستی میڈیا دونوں ہی ذرائع کے مطابق آج کی اس پُر تشدد کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 31 جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
عرب لیگ کے چیف نبیل العربی کی طرف سے شام سے متعلق کانفرنس کے انعقاد کا اعلان مصری دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے ہیڈکواٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا۔ انہوں نے اس اعلان سے قبل مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے ہوئے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے شام کے لیے خصوصی مندوب لخضر براہیمی کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔
تیئیس اور چوبیس نومبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں عالمی طاقتیں شام کے دونوں حلیفوں کو دمشق کی ایک عبوری حکومت کے قیام پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے جس کی بنیاد 2012 ء میں شام کے بحران کے حل کے لیےجنیوا میں طے پانے والا منصوبہ ہوگا۔
شام کا بحران اب تیسرے برس میں داخل ہو گیا ہے۔ اس اثناء میں ایک لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اس طویل خانہ جنگی نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے اور اس ملک کا حساس معاشرتی ڈھانچا بھی تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ متعدد عالمی جائزوں کے مطابق شام کے بحران کے سبب پانچ ملین شامی باشندے اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کرنے اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چُکے ہیں جب کہ پناہ کی تلاش میں پڑوسی اور دیگر ممالک کا رُخ کرنے والوں کی تعداد دو ملین کے قریب بتائی جا رہی ہے۔
دریں اثناء الجزائر سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق سفارت کار اور عالمی تنازعات کے حل کے لیے نہایت اہم سمجھے جانے والے ثالث لخضر براہیمی نے ایک بیان میں کہا، "جینیوا کانفرنس کو بہت سی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔" براہیمی نے تاہم ان مشکلات کی نوعیت پر روشنی نہیں ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کل، یعنی پیر کو خلیجی ملک قطر اور ترکی جائیں گے جس کا مقصد مجوزہ جینیوا کانفرنس کی تیاریاں مکمل کرنا ہے۔
اُدھر شام کی منقسم اپوزیشن نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اُس سے صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اپوزیشن کسی ایسے منصوبے سے اتفاق نہیں کرے گی جس کے تحت عبوری حکومت میں بشار الاسد کو بطور سربراہ مملکت برقرار رکھنے کی بات کی جائے۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی شام کی مغرب نواز سمجھا جانے والا نیشنل کولیشن، جو مختلف اپوزیشن گروپوں کا مرکزی سیاسی اتحاد ہے، کہہ چُکا ہے کہ وہ محض اس صورت میں مذاکرات کے لیے تیار ہوگا کہ شروع ہی سے یہ بات طے ہو کہ اسد عبوری حکومت کی میعاد پوری ہونے کے ساتھ ہی اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ شام میں بہت سے باغی جنگجوؤں نے پہلے ہی اسد حکومت کے ساتھ مذاکرات کو سرے سے رد کر دیا تھا جب کہ دمشق حکومت 2014 ء کے وسط یعنی اسد کے دورِ صدارت کے اختتام تک انہیں برسر اقتدار دیکھنا چاہتی ہے۔