شامی بحران نیا رخ اختیار کرتا ہوا، کیری اور ہیگ کی ملاقات
12 جون 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا ہے کہ امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ اس ملاقات میں شام کی خانہ جنگی اور اس خونریز تنازعے کے خاتمے کے لیے مجوزہ امن کانفرنس کے بارے میں مشاورت کریں گے۔ امریکا روس کے ساتھ مل کر جنیوا میں ایک ایسی امن کانفرنس کے انعقاد کی کوششیں کر رہا ہے، جس میں صدر بشار الاسد کی حکومت اور شامی اپوزیشن دونوں کے نمائندے شریک ہوں۔
تاہم اب تک فریقین کو مذاکرات کی میز تک لانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ اس مخصوص صورتحال میں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے خبردار کیا ہے کہ باغیوں کے خلاف دمشق حکومت کی کامیابیوں کی وجہ سے شام میں قیام امن کی راہ میں نئی رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی صدر اوباما بھی آج بدھ کو اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم کے ساتھ اس بارے میں مشورے کر رہے ہیں کہ آیا امریکا کو شامی باغیوں کی عسکری حوالے سے مدد کرنا چاہیے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان Jen Psaki نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں جاری خون خرابہ روکنے کے لیے تمام متبادل راستوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ شام میں امریکی فوجی مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اوباما کی نیشنل سکیورٹی ٹیم کے ایک اہم رکن جان کیری نے رواں ہفتے مشرق وسطیٰ کا اپنا طے شدہ دورہ مؤخر کر دیا تھا تاکہ واشنگٹن میں ہونے والی ایسی اہم ملاقاتوں کا حصہ بن سکیں، جن کا مقصد شامی بحران کا خاتمہ ممکن بنانا ہے۔ جین ساکی کے بقول وزیر خارجہ جان کیری امن مذاکرات منعقد کرانے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم ساکی نے زور دیتے ہوئے کہاکہ یہ کانفرنس صرف اس لیے منعقد نہیں کرائی جائی گی کہ لوگ مل کر تو بیٹھیں لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلے۔
شام میں لڑائی کا سلسلہ جاری
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان ساکی کا کہنا تھا کہ امریکا یہ کانفرنس اس لیے منعقد کرانا چاہتا ہے کہ آگے بڑھا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ کانفرنس کا ماحول مثبت ہو اور اس سے نتائج برآمد ہو سکیں۔
ادھر شام میں لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کے ہزاروں جنگجو شامی صدر بشار الاسد کی افواج کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف مسلح کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران صدر اسد کی حامی افواج کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔
اسی تناظر میں ولیم ہیگ نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جنیوا مذاکرات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اس صورتحال میں دمشق حکومت اپوزیشن کو شاید مناسب رعایتیں نہ دے اور دوسری طرف اپوزیشن بھی اس مذاکراتی عمل سے بد زن ہو جائے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے فرانسیسی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ القصیر پر صدر اسد کی حامی افواج کے قبضے کے بعد شام کا بحران ایک نئی شکل اختیار کر گیا ہے اور اب دمشق حکومت حلب پر حملے کی تیاریوں میں ہے تاکہ اسے بھی اپنے قبضے میں لے سکے۔
(ab/mm( AFP