شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟
3 دسمبر 2024گزشتہ بدھ کے روز حیات تحریر الشام ( ایچ ٹی ایس) نامی اسلامی ملیشیا نے صدر بشار الاسد کی حکومتی افواج کے خلاف اچانک حملہ شروع کیا۔ جمعہ کے روز ترک حامی گروپ ایچ ٹی ایس کی قیادت میں شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کے ساتھ ہی آس پاس کے کئی دیہاتوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق ان کی اگلی کوشش اب حماہ شہر پر قبضہ کرنے کی ہے۔
جنگوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک آزاد تنظیم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے شام میں سینیئر تجزیہ کار، نانار ہواش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "اتوار کے روز، بھاری حکومتی کمک حماہ پہنچی اور انہوں نے ایچ ٹی ایس کو شمال کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے، کچھ قصبوں اور دیہاتوں پر دوبارہ قبضہ بھی کر لیا ہے۔"
شامی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں میں تیزی: کشیدگی میں کمی کی اپیل
ہواش کا خیال ہے کہ اب ایک بڑا جوابی حملہ لازمی ہے، جس کی وجہ سے "اگلے دو ہفتوں اور مہینوں میں شام کی خانہ جنگی کا ایک بڑا مرحلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔"
اس سے پہلے سن 2015 میں بھی حماہ نے زبردست خانہ جنگی دیکھی تھی۔
جب سن 2011 شام کی ایک بڑی آبادی نے جمہوری تبدیلی کے لیے زور دینا شروع کیا تھا، تو اس وقت بھی باغی گروپ ابتدائی طور پر سرکاری افواج کے خلاف اپنی لڑائی میں کامیاب ہوئے تھے۔
اس کے باوجود سن 2015 میں اسد کی فوجیں حماہ میں حملے کو روکنے میں اس وقت کامیاب ہوئیں جب اسد کے اتحادی روس اور ایران نے اپنی فوجی حمایت میں اضافہ کیا۔
اس کے بعد اسد کے مخالفین پر بے شمار فضائی حملے کیے گئے، جس کی وجہ سے حکومتی افواج کو اس علاقے کے زیادہ تر ان حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مدد ملی جو اس نے کھو دیئے تھے۔
شام میں لڑائی کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات ہوں گے، اقوام متحدہ کے سفیر
شام میں کون لڑ رہا ہے؟
موجودہ حملوں کے پیچھے اصل میں جو گروپ محرک ہے وہ ترک حامی ایچ ٹی سی ہے۔ اس گروپ کو 2018 میں امریکہ نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا لیبل لگا دیا تھا اور اس سے پہلے امریکہ کی طرف سے نامزد کردہ ایک اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے بھی یہ گروپ وابستہ رہا ہے۔
ایچ ٹی سی شام کے شمال مشرقی علاقے ادلب کو کنٹرول کرتا ہے، جو ملک میں اپوزیشن کا آخری گڑھ ہے۔
حلب کے زیادہ تر حصے پر باغیوں کا کنٹرول ہے، سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس
اقوام متحدہ کے مطابق ادلب فی الوقت تقریباً 40 لاکھ اندرونی طور پر بے گھر شامی مہاجرین کا گھر بھی ہے۔
تاہم بظاہر صرف ایچ ٹی سی ہی وہ گروپ نہیں ہے، جو صدر اسد کی افواج کے زیر قبضہ علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حزب اختلاف کی شامی نیشنل آرمی، یا ایس این اے کے ترک حمایت یافتہ دھڑوں نے بھی ملک کے شمال مشرق میں اکثریتی کردوں کو نشانہ بنانے کے لیے "ڈان آف فریڈم" کے نام سے ایک متوازی کارروائی شروع کی ہے۔
ترکی کی سرحد شمال میں شام سے ملتی ہے اور انقرہ بڑی حد تک دمشق حکومت کی مخالفت میں رہا ہے۔ اس نے کردوں کے خود مختار علاقے پر باقاعدگی سے حملے بھی کیے ہیں اور انقرہ کو نشانہ بنانے والے گروپوں کو "دہشت گرد" قرار دے رکھا ہے۔
شامی فوج اور باغیوں میں شدید لڑائی، 240 سے زائد افراد ہلاک
شام کے بشار الاسد کا حامی کون ہے اور کیوں؟
یوکرین کے خلاف روس کی جاری جنگ کے باوجود ماسکو اسد کی حمایت کرتا ہے کیونکہ اس کے کئی فوائد ہیں، کیونکہ شام کے ساتھ اتحاد خطے میں روس کے اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو مضبوط کرتا ہے اور یوکرین میں تعیناتی سے قبل روس کی فوج اور کرائے کے فوجیوں کو تربیت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ روس "یقیناً بشار الاسد کی حمایت جاری رکھے گا،" اور روس "صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے جو ضروری ہے اس پر ایک پوزیشن تیار کرے گا۔"
اسد کی حمایت سے ایران کے ساتھ روس کے قریبی تعلقات کو آسان بنا دیا ہے، جو اب روس کا ایک اہم اتحادی بن چکا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرح ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے بھی اسد کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس تازہ ترین بغاوت کو روکنے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔
پیر کے روز ہی لندن میں قائم اپوزیشن گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اطلاع دی کہ ایرانی کمانڈ کے تحت تقریباً 200 عراقی جنگجو پک اپ ٹرکوں میں سوار ہو کر شام میں داخل ہوئے ہیں تاکہ حلب کے قریب فوج کی جوابی کارروائی میں مدد کر سکیں۔
لڑائی ابھی کیوں شروع ہوئی؟
مشرق وسطیٰ کے ایک تجزیہ کار اور اقوام متحدہ کے مشیر لورینزو ٹرمبیٹا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ شام میں ترک حامی جہادی باغیوں نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے فوراً بعد ہی حملہ شروع کر دیا۔"
حزب اللہ – جسے امریکہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا ہے، ایران کی طرف سے مالی معاونت کے ساتھ ساتھ اسلحے سے بھی لیس ہے اور تربیت یافتہ بھی ہے۔ تاہم لبنان کی سرحد پر اسرائیل کے ساتھ ایک برس کی لڑائی سے یہ کافی حد تک کمزور بھی ہو گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ "اس ترک نواز حملے کے نتیجے میں پورے مشرق وسطیٰ میں ایرانی اور ایران نواز محاذ کمزور ہو گیا ہے۔"
اسرائیل کے ساتھ حالیہ ٹاٹ فار ٹیٹ میں ایران کا دفاع بھی کمزور ہوا ہے۔ اسرائیل نے شام کے اندر بھی ایرانی اڈوں پر حملے بھی بڑھا دیے ہیں اور لبنان اور شام کے درمیان سپلائی روٹس کاٹ دی ہیں۔
شام کا دوسرا اہم اتحادی روس تقریباً تین سال سے یوکرین کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ گرچہ یہ اندازہ لگانا ابھی ناممکن ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال کس طرح سامنے آئے گی، کرائسز گروپ کے نانار ہواش کا کہنا ہے کہ ایک چیز تو ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، "بدقسمتی سے، عام شہریوں کو ان جھڑپوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔"
ص ز/ ج ا (جینیفر ہولیس)