1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شدت پسندی ترک کرنے والے طالبان کو محفوظ راستہ دیا جائے گا، سہ فریقی اجلاس

27 اپریل 2012

پاکستان، افغانستان اور امریکہ نے شدت پسندی ترک کر کے افغان مصالحتی عمل میں حصہ لینے کے خواہشمند طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے ایک سہ فریقی گروپ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/14m2r
تصویر: AP Graphics/DW

تینوں ممالک کے نمائندوں پر مشتمل سہ فریقی کور گروپ کا چھٹا اجلاس جمعے کو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہو گیا۔ اس اجلاس کے اختتام پر پاکستانی سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لودین اور امریکی نمائندہ خصوصی مارک گروسمین نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔

پاکستانی سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ کور گروپ کا اجلاس تعمیری اور مثبت رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب افغانستان فیصلہ کن لمحات سے گزر رہا ہے، تینوں ممالک کے نمائندوں نے افغان امن عمل سے متعلق پیشرفت پر نظرثانی کی۔ جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ تینوں ممالک مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے باہمی شراکت داری، احترام،اعتماد اور شفاف طریقے سے مل جل کر کام کریں۔

Pakistan Haqqani Marc Grossmann USA Hina Rabani Khar
مارک گروسمین پاکستانی وزیرخارجہ کے ہمراہتصویر: picture alliance/dpa

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران افغان مہاجرین کی وطن واپسی، بارڈر مینجمنٹ اور منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام پر تبادلہ خیال کیا۔ پاکستانی سیکریٹری خارجہ نے کہا، ’’حکومت پاکستان کی جانب سے میں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت کی کوششوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کا اہم قومی مقصد ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کور گروپ کے اجلاس میں دو ذیلی گروپوں کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔

افغان نائب وزیر خارجہ نے ان دو ذیلی گروپوں کے قیام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ذیلی گروپ کا مقصد نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے دفتر میں افغان امن عمل سے متعلق سرگرمیوں کے لیے رابطہ کاری ہے تاکہ امن عمل میں شمولیت کے خواہشمند طالبان اور دوسرے شدت پسندوں کے نام ’منفی فہرستوں‘ سے نکلوائے جا سکیں۔ جاوید لودین نے کہا کہ دوسرے گروپ کا مقصد طالبان اور شدت پسندوں کو امن عمل میں شامل کرنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں ایک ایسی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں وہ محفوظ اور پراعتماد محسوس کر سکیں کہ انہیں امن مذاکرات میں شامل کیا جا سکتا ہے اور اس عمل کے ان کے لیے کوئی خطرناک نتائج بھی نہیں ہوں گے۔‘‘

امریکی نمائندہ خصوصی مارک گروسمین نے کہا کہ امن عمل کے نتائج کے بارے میں امریکہ بہت واضح ہے اور وہ یہ ہیں کہ طالبان اور دوسرے شدت پسند القاعدہ کے ساتھ تعلقات ختم کرتے ہوئے تشدد ترک کریں اور افغان آئین پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان، افغانستان اور امریکہ میں بداعتمادی نہیں۔

مارک گروسمین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے تینوں ممالک کے وزراء خارجہ کی سطح پر مذاکرات جون میں کابل میں ہوں گے۔

افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی لائن دوبارہ کھولنے کے حوالے سے مارک گروسمین نے کہا کہ اس بارے میں پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ سپلائی لائن کو دوبارہ محفوظ طریقے سے کھولا جائے۔ امریکی نمائندہ خصوصی نے جمعہ کے روز پاکستانی صدر آصف علی زرداری وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملاقات کی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: امتیاز احمد