’شریعت کا نفاذ ورنہ... ‘، مولانا عبدالعزیز
7 فروری 2014مولانا عبد العزیز کی علیحدگی کے بعد طالبان کی ابتدائی طور پر اعلان کردہ پانچ رکنی کمیٹی میں اب صرف دو ارکان باقی رہ گئے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیت علماء اسلام (ف) طالبان کی کمیٹی میں شمولیت سے انکار کر چکے ہیں۔
جمعہ سات فروری کو لال مسجد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ ان مذاکرات میں شامل ہوئے تھے لیکن حکومت نے ان مذاکرات کو اُس ملکی آئین کے دائرہ کار میں رکھنے کی شرط عائد کر دی، جسے وہ غیر اسلامی سمھجتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان کا آئین بلکہ انصاف کا نظام بھی قرآن وسنت کے منافی ہے۔
مولانا عبدا لعزیز کا کہنا تھا کہ طالبان بھی اس آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آئین کی شرط عائد کرنے سے مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا:’’فی الوقت مذاکرات کے عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔ جب تک حکومت یہ وعدہ نہ کرے کہ آئین نہیں بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں مذاکرات ہوں گے، وہ اس کو دستور بنائے گی اور اسلامی نظام کا وعدہ کرے گی تو ہم مذاکرات کا حصہ بن جائیں گے ورنہ جو مجھے نظر آرہا ہے، یہ مذاکرات صرف اور صرف زبانی باتیں ہیں۔‘‘ مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ آئین کو اسلام سے ہم آہنگ کیے بغیر امن کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہیں ہو گا ۔
طالبان کی کمیٹی میں اب مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم باقی رہ گئے ہیں۔ جمعے ہی کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ملکی آئین اسلامی ہے اور اس میں قرآن اور سنت کے منافی کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور حکومت مذا کرات کو سبوتاژ کرنے والوں سے ہوشیار رہیں۔
دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات میں ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات کرنے کے بجائے ذرائع ابلاغ پر زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے، جو دونوں جانب غلط فہمیوں کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ تاہم سینئر صحافی اور وقت نیوز چینل کے اینکر پرسن مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ میڈیا صرف وہی رپورٹ کر رہا ہے، جو اس کے ساتھ شئیر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’نہ صرف میڈیا کے ذریعےبات کی جا رہی ہے بلکہ اب تو باقاعدہ صحافیوں کو مذاکرات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تو میرے خیال میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اگر صحافی مذاکرات کا آلہ بن سکتے ہیں تو میڈیا کے ذریعے بیان دینے میں کوئی برائی نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ بیان کون دے رہا ہے اور کیا وہ شخص اپنے بیان پر قائم بھی ہے یا نہیں۔ میڈیا پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکومت اور طالبان دونوں کی کمیٹیوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے براہ رست بات چیت اور تبادلہ خیال کرنا ہو گا۔