شمالی وزیرستان اور آپریشن ضربِ عضب
17 جون 2014شمالی وزیرستان میں انتہا پسند جنگجوؤں کے خلاف پاکستانی فوج کے شروع کیے گئے آپریشن کے دوسرے دن بھی جنگی طیاروں نے اہداف کو نشانہ بنایا۔ فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ زمینی فوج کی پیش قدمی بارے میں کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔
پیر کے روز جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے درمیانی علاقے میں قائم عسکریت پسندوں کے چھ مختلف ٹھکانوں کو جنگی طیاروں نے نشانہ بنایا۔ فوج کے مطابق پیر کی صبح میں ہونے والے فضائی حملوں میں کم از کم 27 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ فوج کے مطابق مزید چودہ عسکریت پسند دوسری جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ کے قریب سڑک کنارے بم نصب کرنے والے تین عسکریت پسندوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کرنے کا بتایا گیا ہے۔ فوج کے مطابق اتوار اور پیر کے دو دنوں میں 200 کے قریب عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ اسی طرح کم از کم آٹھ فوجیوں کی ہلاکت کا بھی بتایا گیا ہے۔ ان میں سے چھ سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے مارے گئے جبکہ دو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے۔
عسکریت پسندوں کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے ایک انتباہی بیان مختلف رپورٹرز کو ارسال کیا گیا اور اُس میں بین الاقوامی سرمایہ کار اداروں، غیر ملکی ہوائی کمپنیوں اور ملٹی نیشنل آرگنائریشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو چھوڑ دیں بصورت دیگر انہیں حکومتِ پاکستان کا حلیف سمجھا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق اِس صورت میں وہ بھی اُن کا ٹارگٹ ہوں گے۔ شاہد اللہ شاہد کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بدلے میں اب اسلام آباد اور لاہور شہروں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ آپریشن شروع ہونے کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے جامع آپریشن کا بڑے عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اس علاقے میں ٹھکانے بنائے ہوئے شدت پسند پاکستان، سکیورٹی فورسز، افغانستان اور نیٹو فوج پر بھی حملوں سے گریز نہیں کرتے تھے۔ امریکا خاصے عرصے سے پاکستان پر ایسے آپریشن کو شروع کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ واشنگٹن حکومت شاکی تھی کہ اسلام آباد حکومت قبائلی علاقوں میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں رکھتی۔ یہ امر اہم ہے کہ اِس آپریشن سے نواز شریف حکومت کے عسکریت پسندوں سے مذاکرات جاری رکھنے کی پالیسی کی عملاً موت واقع ہو گئی ہے۔
اِس آپریشن پر امریکی حکومت کا تبصرہ سامنے آیا ہے اور اُس میں کہا گیا کہ یہ پاکستان کا اپنا فوجی آپریشن ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے ہمیشہ پاکستان کی اُن کوششوں کی حمایت کی ہے جو وہ قبائلی علاقوں میں حکومتی عملداری قائم کرنے سے متعلق ہوتی ہیں۔ جین ساکی نے شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے افغانستان میں امریکی کوششوں کو حاصل ہونے والی ممکنہ تقویت پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔