شامی مہاجر، افسردہ بھی پرامید بھی
21 جنوری 2017گزشتہ برس ہنگری کی سرحد کے قریب ایک خاتون صحافی نے دوڑ کر سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے مہاجر اسامہ العابد المحسن کو ٹانگ اڑا کر گرا دیا تھا۔ اس مہاجر کی بیوی اور ایک بیٹی ابھی تک ترکی میں پھنسے ہوئے ہیں اور المحسن کو امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے خان دان کو دوبارہ دیکھ سکے گا۔
شام میں پہلے درجے کے فٹ بال کوچ کے طور کام کرنے والے المحسن کو اسپین میں ایک فٹ بال اسکول میں کوچنگ کی نوکری ملی ضرور لیکن ہسپانوی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر یہ نوکری ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ المحسن اب اسپین چھوڑ نے پر غور کر رہے ہیں۔
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ ایک سرحد عبور کرنے والے مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
گزشتہ ہفتے ہنگری کی ایک عدالت نے ’نامناسب رویے‘ کے جرم میں لازسلو کو تین برس کی معطل سزا بھی سنا دی تھی۔ اس خاتون صحافی کا موقف تھا کہ اس نے یہ اقدام اپنے تحفظ میں اٹھایا، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
المحسن نے اس معاملے اور صحافی سے متعلق بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ یہ معاملہ ’بھول‘ چکے ہیں۔
میڈرڈ کے نواح میں دو کمرے کے ایک فلیٹ میں رہنے والے المحسن نے کہا، ’’میں اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں اس صحافی کے بارے میں سوچوں۔‘‘
اس 52 سالہ شامی مہاجر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان سے دوری پر اداس ہیں، مگر انہیں امید ہے کہ وہ جلد اپنی بیوی اور بیٹی سے ملے گے۔