ہاورڈ ہیلتھ پبلشنگ کی شائع کردہ تازہ ترین تحقیق کے مطابق ورزش کرنا اشد ضرورت ہے، جو انسان کو صحت مند رکھتی ہے۔ بہت اہم امراض جیسا کہ دل کی بیماریاں، ڈپریشن، ڈائمینشیا اور ذیابیطس وغیرہ کے خلاف ورزش بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور جسمانی فٹنس ان امراض سے بچاؤ میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔
چہل قدمی، سائیکل چلانا اپنے گھر کے کام خود کرنا وہ عام چیزیں ہیں، جو طرز زندگی میں شامل کرنے سے ہم اپنی صحت بہتر کر سکتے ہیں اور ان سب کا مالی حالات سے قطعاً تعلق نہیں ہے مگر ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور سائیکل سوار کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔
گھر کے بنیادی روزمره کے کاموں میں ملازمین پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں بچپن سے اپنا کام خود کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے کا عام رواج ہے۔ مشینوں کے ذریعے آسانی ضرور میسر آتی ہے مگر انسان بھی چلتے پھرتے اور چست رہنا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اپنے ہی گھر کا کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
معلوم نہیں یہ ایکسپوژر اور تجربے کی کمی ہےیا بے لوث محبت، جس کی وجہ سے مجھ سے بھی اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ''بیچاری‘‘ اپنے گھر کا سارا کام خود کرتی ہے؟ میں آج تک یہ سمجھ نہیں پائی کہ بیچارہ اصل میں ہے کون، وہ جو اپنے گھر کے اور باہر کے ہر کام کے لیے کسی اور کا محتاج ہے یا وہ جو خود کفیل اور فٹ ہے؟ یہ تو خیر کسی اور وقت کی بحث ہے کہ کیا یہ باعث فخر ہے یا افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں اتنی بے روزگاری اور غربت ہے کہ گھریلو ملازمین بہت سستے دستیاب ہیں البتہ باہر کے ممالک میں ان کی عدم دستیابی بہت سے لوگوں کے چست رہنے کا کھلا راز ضرور ہے۔ اور بات صرف وسائل کی نہیں جرمنی میں تو چانسلر انگیلا میرکل نے 16 سال حکومت میں رہ کر بھی کبھی کوئی گھریلو ملازم رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
ہمارے میڈیا کے مطابق بھی زیادہ تر ڈراموں میں ہمیشہ امیر کردار صبح سویرے جاگنگ کرتے اور مالٹے کا جوس پیتے ہوئے دکھائے جائے ہیں جبکہ غریبوں کو ایسی کسی زحمت کی ضرورت نہیں محسوس کرائی جاتی ہے۔ ماڈرن خواتین جم جاتی، ڈائٹنگ کرتی دکھائی جاتی ہیں، جنہیں گھر اور گھرستی سے خاص غرض نہیں، جبکہ عام عورت گھر کے جھمیلوں میں پھنسی اپنی تفریح کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹی وی دیکھتی دکھائی جاتی ہے۔ حقیقتا بھی ہمارے ہاں کی متوسط طبقے کی ایک عام گھریلو خاتون کی زندگی میں ایسے مواقع اور بھی کم ہیں۔ جم جانا پارک میں چہل قدمی یا جاگنگ کرنا ہمیشہ محفوظ تصور نہیں ہوتا اور ماضی میں کچھ ناخوشگوار واقعات مزیدحوصلہ شکنی کا باعث ثابت ہوئے ہیں۔
کھیلوں کی بات کی جائے تو بچپن سے لڑکے کرکٹ اور فٹ بال گلی گلی کھیلتے ہیں لیکن لڑکیوں پر نو دس سال کی عمر سے ہی باہر کھیلنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ گھر کے اندر کھیلے جانے والے زیادہ تر کھیل جسمانی طور پر زیادہ چیلنجنگ نہیں ہوتے۔ لڑکیوں کے باہر کھیلنے پر ماں باپ کے خدشات اور فکریں اپنی جگہ درست سہی لیکن لڑکیوں کو جسمانی طور پر مضبوط اور فٹ رہنے میں یہ کمی ایک گھاٹے کا سودا ہے اور اس کا بہتر سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہم اکثر بزرگوں کو ہر چیز بستر پر يا بیٹھے بٹھائے فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہاں نیت چاہے سراسر خدمت گزاری اور فرمانبرداری ہی سہی مگر ضروری نہیں کہ اس میں بزرگوں کی بھلائی ہو بلکہ ان کا چلتے پھرتا رہنا ان کو محتاجی سے محفوظ رکھتا ہے۔
اچھی صحت کے لیے ورزش اور ایکٹو رہنے کے ساتھ متوازن صحت بخش غذا بھی بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں کے پکوان اور خورد و نوش کی روایات پر غالباً ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ جہاں ہمارے کھانے اپنی لذت اور مخصوص ذائقے کے لیے دنیا بھر میں مانے جاتے ہیں وہیں چکنائی کا بے دریغ استعمال عرب ممالک کے کنوؤں کو شرما دیتا ہے۔ مہمان نوازی اور دعوتیں ہماری تہذیب کا ایک بہت خوبصورت حصہ ہیں مگر ہم دعوت شیراز کے قطعا قائل نہیں ہیں۔ تقریب کے کھوں میں سادی اور صحت بخش غذا کا خاص رواج نہیں جبکہ مصالوں سے بھرا ہوا اور چکنائی میں ڈوبا ہوا مرغن کھانا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔
ہمارے روایتی کھانوں میں زیادہ چکنائی اور غیر صحت مند اجزاء تو ایک مشکل تھے ہی مگر فاسٹ فوڈ نے اس مسئلے کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں بکثرت نئے ریستوراں روز کھل رہے ہیں اور اب یہ نت نئی سمارٹ فون ایپ جو 24 گھنٹے کھانا گھر ڈیلیور کروا دیتی ہیں، ہماری خوش خوراک عوام کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں۔
دنیا بھر میں ڈاکٹر رات کا کھانا جلدی کھانے اور چہل قدمی کر کے سونے کی ہدایت دیتے ہیں اور ہمارے ہاں مڈ نائٹ ڈیلز میں برگر اور پیزا کھایا جاتا ہے۔ صبح جلدی اٹھ کر چہل قدمی کرنا جاگنگ کرنا یا کام پر ہی جانے کے لیے پیدل چلنا یا سائیکل کے استعمال کو ضروری نہیں سمجھا جاتا البتہ صبح سویرے فجر کے وقت سے دفتری اوقات شروع ہونے تک پائے، نہاری اور حلوہ پوری جیسے ناشتے مکمل فروخت ہو جاتے ہیں۔ سیلف میڈیکیشن بھی ایک عام رواج ہے اس لیے جلن سے بچنے کے لیے کوئی دوا ضرور لے لیں گے مگر زبان کے ذائقے پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ حال ہی میں لاہور میں ایک منعقد کردہ کتب میلے کی ایک خبر دیکھنے کو ملی کہ میلے میں صرف 35 کتابیں جبکہ 1200 شورامے اور 800 بریانی کی پلیٹوں فروخت ہوئیں۔ بحیثیت قوم ہماری ترجیحات صاف ظاہر ہیں۔
چکنائی کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ بہت زیادہ میٹھے کا استعمال ہے۔ انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں تقریبا 33 ملین لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں اور اس بڑھتے ہوئے مرض کا ذمہ دار بے تحاشا چینی کا استعمال اور غیر فعال طرز زندگی ہے۔ میٹھے کا بے دریغ استعمال ہماری عادات میں اس قدر شامل ہے کہ جرمنی آنے کے بعد بہت سے پاکستانیوں کو میسر ڈبل روٹی سے لے کر ہر طرح کے سنیکس بالکل پھیکے لگتے ہیں۔
ہمیں اپنی عادات اور طرز زندگی کو صحت کے اصول و ضوابط کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ یہ انواع و اقسام کے کھانے اور آرام پسندانہ روز و شب شاید وقتی طور پر خوشگوار محسوس ہوتے ہیں مگر طویل مدت میں مزاج اور صحت پر دور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ زیادہ چکنائی، زیادہ میٹھا اور سست زندگی مزاج میں چڑچڑا پن پیدا کرتے ہیں۔
خواتین کے لیے فٹنس کے محفوظ مواقع فراہم کرنا اور گھر کے کاموں میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا اجتماعی طور پر سارے خاندان کی بہتر صحت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ باقاعدگی سے ورزش اور صحت بخش غذا زندگی بڑھا تو نہیں سکتی مگر معیار ضرور بہتر کرتی ہے۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا اور اسے امیروں کا چونچلا جانے بغیر سنجیدگی سے چستی اور متوازن غذا کو ترجیح دینا بہت سے امراض سے بچاتا ہے، مثبت سوچ کا باعث بنتا ہے اور زندگی خوشگوار رہتی ہے کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔