صدارتی آرڈیننس 2013ء ، شدت پسندوں کو گولی مارنے کے اختیارات دے دیے گئے
11 اکتوبر 2013اس صدارتی آرڈیننس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن و امان کے قیام کے لیے شدت پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس میں 1997ء کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے کی مختلف شقوں میں ترامیم کی گئی ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ترمیم آرڈیننس کے ذریعے الیکٹرانک اور فرانزک شواہد کو بھی عدالت کے لیے قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی شخص کے خلاف قابل بھروسہ اطلاع موصول ہونے کے بعد اسے تین ماہ تک کسی عدالت میں پیش کیے بغیر زیر حراست رکھا جا سکے گا۔
اس سے قبل کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد اس کو چوبیس گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ کی گئی ایک ترمیم کے تحت مقدمہ شروع ہونے سے پہلے پراسیکیوٹر مقدمے کی فائل کی جانچ پڑتال کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی تمام ضروری کارروائی مکمل ہو سکے۔
اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور شدت پسندی کے موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف عامر رانا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادروں کے بعض اہلکاروں کے رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس نوعیت کی قانون سازی کے لیے حکومت کو حفاظتی تدابیر بھی مد نظر رکھنی چاہیے تھیں۔ انہوں نے کہا ’’ جو ادارے اس آرڈیننس کو استعمال کریں گے کیا وہ ان قوانین کو صحیح استعمال کرنے کے اہل بھی ہیں۔ یا وہ اس کا غلط استعمال زیادہ کریں گے۔ جب بھی قانون سازی ہوتی ہے تو حکومت اس کو یقینی بناتی ہے کہ جو ادارے یا افراد ان قوانین کو استعمال کریں گے ان پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ لیکن ان قوانین کے حوالے سے ایسا کھچہ نظر نہیں آتا ‘‘۔
ماضی میں کراچی شہر میں رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایسے واقعات سرزد ہوچکے ہین جں میں عام شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بننا پڑا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے پے درپے واقعات نے ایسے غیر معمولی حالات پیدا کر دے ہیں جو غیر معمولی قانون سازی کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کو سراہتے ہوئے کہا ’’ ایک عارضی اقدام کے طور پر یہ قانون یقینا مدد کرے گا۔ میرے خیال سے دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے کچہ ایسے معاملات ہیں جو پورے ہوئے ہیں۔ ہم ٹاک شوز اور مختلف فورموں پر باتیں کرتے رہے کہ ایسے قوانین آنے چاہیے کہ جو ایک طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پاور دیں کہ وہ ان سارے معاملات کو حل کر سکیں‘‘۔
ترمیمی آرڈیننس میں انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کے علاوہ گواہان اور وکلاء کو تحفظ دینے کے لیے خصوصی اقدامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
جمعے کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے دہشت گردی اور شدت پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے قوانیں کو سخت کر رہی ہے۔