صدام کے خلاف امریکہ کی حمایت ضروری تھی، بلیئر
22 جنوری 2011اس موقع پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے صدام حسین کے خلاف کارروائی کے لیے امریکہ کی حمایت کی تھی۔
ٹونی بلیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے عراق پر 2003ء کے حملے سے ایک سال قبل صدام حسین کے خلاف کارروائی کے لیے امریکہ کی حمایت کی تھی۔ تاہم انہوں نے یہ بات کہنے سے گریز کیا کہ انہوں نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے غیرمشروط عسکری معاونت کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے اپنے بیان میں ایک مرتبہ پھر اپنے مؤقف کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس وقت صدام حسین کے خلاف امریکہ کی حمایت اور مدد ضروری تھی۔
انہوں نے کہا، ’میں نے صدر بش سے جو بھی کہا، وہ بہت واضح اور سادہ سی بات تھی کہ آپ ہم پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اس پر قابو پانے کے لیے ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن اس میں کچھ مسائل بھی ہیں۔‘
انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ امریکہ پر 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں نے خطرے کی نوعیت بدل دی تھی، یعنی اس کے لیے صدام سے نمٹنا ضروری تھا، جو دُنیا کے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے اور اقوام متحدہ کے ضوابط پر عمل کرنے سے انکار کر رہے تھے۔
لندن کانفرنس سینٹر میں ہونے والی اس انکوائری کے موقع پر اس سینٹر کے باہر درجنوں افراد نے جنگ مخالف مظاہرہ کیا۔
عسکری کارروائی کا فیصلہ کب کیا گیا، جنگ مخالفین کے لیے یہ نکتہ بہت اہم ہے، وہ اس حوالے سے بلیئر اور بش کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر ایسا قدم اٹھایا۔ بلیئر نے عراق جنگ کے لیے اپنے 45 ہزار فوجی بھیجے تھے۔
عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کے حوالے سے قائم اس تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے ٹونی بلیئر جمعہ کو دوسری مرتبہ پیش ہوئے۔ انہیں ان کے سابقہ بیان اور موجود دساویزات اور شہادتوں میں پائے جانے والے تضادات کے حوالے سے وضاحت کے لئے طلب کیا گیا تھا۔
ٹونی بلیئر گزشتہ برس جنوری میں اس تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر