ضرب عضب میں 910 عسکریت پسند ہلاک ہو چکے، پاکستانی فوج
3 ستمبر 2014افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوج کی طرف سے آپریشن کا آغاز ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایئرپورٹ پر طالبان کے حملے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد پاکستانی حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان کئی ماہ سے جاری مذاکرات کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا۔
شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ میں فضائی حملے، توپ خانہ، شیلنگ اور زمینی آپریشن سمیت ہر طرح کی کارروائی کی گئی ہے۔ یہ علاقہ تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ دیگر شدت پسند تنظیموں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا تھا۔
پاکستانی فوج کے مطابق شمالی وزیرستان کے اہم شہروں میرانشاہ اور میر علی سے شدت پسندوں سے مکمل صفایا کر دیا گیا ہے۔ فوجی بیان کے مطابق، ’’اس آپریشن کے آغاز سے اب تک 910 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پورے ملک میں 82 میں فوجی شہید ہوئے جبکہ 269 زخمی ہوئے۔‘‘
شدت پسندوں کی ہلاکتوں میں وہ 42 عسکریت پسند بھی شامل ہیں جنہیں ملک بھر میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کے دوران ہلاک کیا گیا۔ فوجی بیان کے مطابق ملک بھر میں ایسے 2000 سے زائد آپریشن کیے گئے۔
فوجی بیان کے مطابق، ’’اب تک سکیورٹی فورسز شمالی وزیرستان کے اہم شہروں میرانشاہ، میر علی، دتہ خیل، بویا اور دیگن وغیرہ کو دہشت گردوں سے پاک کر چکی ہیں۔ ان شہروں کو دہشت گردوں کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ اس آپریشن کے دوران سویلین ہلاکتوں کی تعداد کتنی ہے۔ تاہم متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں سے حاصل ہونے والی رپورٹس کے مطابق فوجی آپریشن کے دوران متعدد سویلین ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
انہی رپورٹس میں جولائی کے مہینے میں وادی شوال میں کیے جانے والے فضائی حملوں میں 37 سویلین ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ ان ہلاک ہونے والوں میں 20 خواتین جبکہ 10 بچے تھے۔
فوج کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ آپریشن کیے جانے والے علاقے کی سویلین آبادی کو مناسب وقت دیا گیا تھا کہ وہ علاقے سے نکل جائیں اور یہ کہ عسکریت پسند ان میں سے بعض کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں فوجی دعووں کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے دستخطوں کے ساتھ جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام شہریوں کی ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ ہمارے 25 سے 30 ساتھی شہید ہوئے ہیں جبکہ بمباری کے نتیجے میں چھ درجن سے زائد سویلین شہید ہوئے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپریشن شروع ہونے سے قبل ہی مجاہدین اپنی بم فیکٹریوں اور ٹریننگ سنٹروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر چکے تھے۔‘‘