طالبان رہنما ممکنہ طور پر پاکستان سے افغانستان منتقل
26 نومبر 2016خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغان طالبان کی قیادت یہ چاہتی ہے کہ رواں برس حاصل کی گئی عسکری کامیابیوں میں مزید تیزی لانے کے لیے افغانستان پہنچ کر وہیں سے ایسی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے۔ اگر ان خبروں کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے مقابلے میں طالبان کی عسکری خود اعتمادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام کا ایک مقصد پاکستان سے خود کو دور کرنا ہے، کیوں کہ افغان عسکریت پسندوں کی اس تحریک کی حمایت کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا جاتا ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان طالبان کی قیادت پاکستان کے کوئٹہ، کراچی اور پشاور جیسے شہروں میں مقیم رہی اور وہیں سے وہ افغانستان میں عسکری کارروائیوں کی نگرانی کرتی رہی تھی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت اور شوریٰ گزشتہ ’چند ماہ سے‘ افغانستان منتقل ہو چکے ہیں۔ تاہم ذبیح اللہ مجاہد نے یہ نہیں بتایا کہ اعلیٰ طالبان رہنما افغانستان میں کس مقام پر منتقل ہوئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے طالبان کے ایک عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ جنوبی صوبے ہلمند منتقل ہوئی ہے۔ ہلمند کو طالبان کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے جب کہ وہاں پوست کی کاشت اور فروخت سے حاصل ہونے والی بھاری رقم یہ عسکریت پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ افغان طالبان ہی کے ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ اس تحریک کی انصاف، بھرتی اور مذہبی امور کی کونسلیں بھی اب جنوبی افغانستان منتقل ہو چکی ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے تاہم کہا گیا ہے کہ اب تک طالبان کی اعلیٰ قیادت کی افغانستان منتقلی سے متعلق اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ صدر غنی کے دفتر کے ایک ترجمان کے مطابق، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان اب بھی بیرون ملک اپنے محفوظ ٹھکانوں سے ہی عسکریت پسندانہ کارروائیوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اس منتقلی سے کابل حکومت آگاہ ہے، کیوں کہ میدان جنگ میں طالبان نے کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب وہ جنگ کے خاتمے کے لیے کابل حکومت سے بات چیت کے اعتبار سے ایک مضبوط پوزیشن میں آ چکے ہیں۔