طالبان سے مذاکرات، نواز شریف کی تجویز کتنی قابل عمل ہے؟
21 مئی 2013پاکستانی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ اور ملک کے متوقع طور پر نئے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ایک بہت اچھا آپشن ہے اس لیے طالبان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول ملک میں ’امن‘ مذاکرات سے ہی آئے گا۔
معروف ماہر سیاسیات اورساؤتھ ایشین سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ ریجنل اسٹیڈیز پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹرحسین شہید سہروردی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات وقت کا تقاضا اورعقل کی بات ہے، کیونکہ اس سے ملک کو فائدہ ہو گا۔ ان کے بقول یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف نواز شریف طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں اور دوسری طرف طالبان انہیں اپنا ضامن قرار دے چکے ہیں۔ ان کے بقول سونے پر سہاگے کی یہ صورتحال مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کومذید روشن کر رہی ہے۔
ڈاکٹر سہروردی کے مطابق دہشت گردی کے حوالے سے کرائے جانے والے کئی جائزے بتاتے ہیں کہ طویل مسلح جدوجہد گروپوں کو تھکا دیتی ہے۔ تیرہ سالہ جدوجہد نے جہاں طالبان کو تھکا دیا ہے وہاں امن کے متلاشی پاکستان کے حکمرانوں کو بھی زمینی حقائق پیش نظر رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے مطابق بات چیت کا مطلب کسی فریق کی کمزوری نہیں بلکہ اس کے شعور کی بیداری ہے۔’’ اگر امریکہ دوحہ میں اور حامد کرزئی پیرس میں طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو ہم اپنے ملک میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتے ‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی سول حکومت کی کوششوں کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو گی۔
پاکستان کے ایک اور معروف ماہر سیاسیات پروفیسرڈاکٹر حسن عسکری رضوی طالبان کے ساتھ نواز حکومت کے مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں پر امید نہیں ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ چونکہ عوام نے اپنا ووٹ ان جماعتوں کو دیا ہے جو طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں اس لیے فوج یا عالمی سطح پر اس کی مخالفت تو نہیں ہوگی۔
ڈاکٹر رضوی کے بقول پاکستان میں طالبان کے حوالے سے دو طرح کے نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان بھٹکے ہوئے لوگ ہیں جو امریکی یا پاکستان کی فوج کے ردعمل کے طور پر مسلح کاروائیاں کر رہے ہیں ان کو مذاکرات کے ذریعے سمجھایا جا سکتا ہے۔
دوسرے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ طالبان اپنے سوچے سمجھے اور مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان اور افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے عالمی عزائم بھی ہیں اور اس مسئلے کو مذاکرات سے حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان آرمی کے پاکستانی طالبان کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ وہ ان مذاکرات کو قبول تو کر لے گی لیکن خوشدلی کے ساتھ نہیں۔
لاہور سکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے سیاسی امور کے ممتاز ماہر پروفیسر سجاد نصیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان سے مذاکرات کوئی سہل معاملہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں بہت سے امور ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ ان کے بقول نواز شریف کا حالیہ بیان عمومی نوعیت کا ہے ابھی اس سلسلے میں بہت سی معلومات کا انتظار کرنا ہو گا۔ نواز حکومت طالبان کے کس گروپ کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ یہ مذاکرات کن شرائط کے تحت ہوں گے۔ امریکہ، افغانستان اور پاکستان آرمی کوکس طرح اعتماد میں لیا جائے گا اور ان کی اس بارے میں پوزیشن کیا ہو گی۔ ان کے بقول ابھی کوئی اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ اقتدار سے پہلے کے بیانات اور بعد کے بیانات میں بڑا فرق ہوتا ہے دیکھنا یہ ہو گا کہ نواز حکومت اس حوالے سے اپنا تفصیلی موقف کب اور کیسے جاری کرتی ہے۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کا امکان ہے اور اگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوئے تو پھر ملکی اقتصادیات میں بھی بہتری کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عدنان اسحاق