طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی آخری راستہ ہے، اشرف غنی
17 جولائی 2015خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ سترہ جولائی بروز جمعہ افغان صدر اشرف غنی نے عید کے موقع پر جاری کردہ اپنے خصوصی پیغام میں عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی ایک واحد راستہ ہے، جو افغانستان کو پائیدار امن کی طرف لے جا سکتا ہے اور جس کے نتیجے میں اس شورش زدہ ملک میں استحکام اورامن کا قیام ممکن ہو گا۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدر اشرف غنی نے اپنے صدارتی محل میں کہا کہ ان کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے نتیجے میں قیام امن کی خواہاں ہے۔ یاد رہے کہ غنی نے صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اپنی ترجیح قرار دیا تھا۔ بطور صدر عید کے موقع پر اپنے پہلے عوامی پیغام میں غنی کا یہ بھی کہنا تھا، ’’مذاکرات امن و سلامتی کے حصول کا آخری راستہ ہے اور ملک میں جاری خون خرابے کے خاتمے کے لیے ہمارے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔‘‘
افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس مذاکراتی عمل کی حمایت کی ہے۔ غنی کے بقول طالبان بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں مرکزی سیاسی دھارے میں شریک کیا جائے۔ جولائی کے اوائل میں پاکستان کی میزبانی میں پہلی مرتبہ کابل اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات منعقد کیے گئے تھے، جن میں امریکا اور چین کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔ اشرف غنی نے اس کوشش کے لیے اسلام آباد حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا تھا۔
عیدالفطر کے موقع پر مسجد میں دھماکا
اشرف غنی نے جب یہ پیغام دیا، اسی وقت بلخ صوبے کی ایک مسجد میں ہونے والے ایک دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ کم ازکم بارہ زخمی ہوگئے۔ طبی ذرائع نے اس دھماکے میں زخمی ہونے متعدد افراد کی حالت تشویشناک بتائی ہے۔ پولیس کے مطابق یہ دھماکا شولگرہ کی ایک مسجد میں اس وقت ہوا، جب نمازی عید الفطر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔
شولگرہ کے ضلعی گورنر سراج الدین عابد نے اس حادثے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ دو نمازی ہلاک جبکہ بارہ زخمی ہوئے۔ ان کے مطابق کچھ زخمیوں کی حالت نازک بھی ہے۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ افغان صدر اشرف غنی ماضی میں متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ کابل اور واشنگٹن حکومتوں کا یہ مؤقف بھی ہے کہ پاکستانی حکومت طالبان پر اثرورسوخ رکھتی ہے اور وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔