عراق پاکستانی تارکین وطن کے لیے پرکشش کیوں بنتا جا رہا ہے؟
29 نومبر 2024عراق کی وزارت محنت کے مطابق ان کے ملک میں آنے والے زیادہ تر غرقانونی تارکین وطن کا تعلق پاکستان، شام اور بنگلہ دیش سے ہے۔ وزارت محنت نے 40 ہزار رجسٹرڈ تارکین وطن کارکنوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اب عراقی حکام غیر ملکی کارکنوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس تناظر میں مختلف گھروں، ریستورانوں اور دکانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
بغداد میں ایک ریستوران کے مالک کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکام اور غیرقانونی تارکین وطن کے مابین 'چوہے اور بلی‘ والا کھیل جاری ہے اور چھاپے کی صورت میں وہ اپنے ملازمین کو فوری طور پر ریستوران سے بھاگ جانے کا کہتے ہیں تاکہ کسی مشکل صورت حال سے بچا جا سکے۔
پاکستانی مزدوروں کے 'نامناسب رویے' پر خلیجی ملکوں کی شکایت
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ریستوران کے اس مالک کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سبھی غیرملکی ملازمین کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے کیوں کہ رجسٹریشن فیس کافی زیادہ ہے۔
پاکستانی ملازمین کی بڑھتی ہوئی تعداد
عراق میں کچھ غیر دستاویزی کارکن اس ملک میں وزٹ ویزے یا پھر مقدس مقامات کی زیارتوں کے لیے آئے تھے۔ جولائی میں وزیر محنت احمد الاسدی نے کہا تھا کہ ان کی وزارت چھان بین کر رہی ہے اور یہ کہ 50 ہزار پاکستانی زائرین اس وقت عراق میں ''غیرقانونی طور پر ٹھہرے‘‘ ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔
لیبیا: انسانی اسمگلروں کی قید سے سینکڑوں پاکستانی بازیاب
غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن اور ملک بدر کرنے کی دھمکیوں کے باوجود عراقی حکام نے نومبر کے آخر میں ''پاکستانی، شامی اور بنگلہ دیشی ورکرز‘‘ کے لیے ایک نئی اسکیم متعارف کرائی تھی اور یہ غیرقانونی تارکین وطن 25 دسمبر سے پہلے پہلے آن لائن درخواست دے کر ملازمت کرنے کا اجازت نامہ حاصل کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب وزارت محنت کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی، جو غیر دستاویزی غیر ملکی کارکنوں کو عراق لاتا یا ملازمت فراہم کرتا ہے۔
عراقی حکومت کی نئی اسکیم کے باوجود غیرقانونی تارکین وطن محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے ہوئے ایک نوجوان رامی کا کہنا تھا کہ وہ ملازمت کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن فی الحال محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، ''میں خوفزدہ بھی ہوں، میں انتظار کر رہا ہوں کہ میرے دوست کیا کرتے ہیں اور پھر میں بھی ویسا ہی کروں گا۔‘‘
غیرملکی کارکنوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش
موجودہ عراقی قانون کے مطابق کوئی بھی عراقی کمپنی زیادہ سے زیادہ 50 فیصد غیر ملکی کارکنوں کو ملازمت دے سکتی ہے لیکن حکام اب اس تعداد کو کم کر کے 30 فیصد کرنا چاہتے ہیں۔
وزارت محنت کے ترجمان نجم العقبی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہ صرف ہنرمند کارکنوں کو ہی ایسی ملازمتوں کی اجازت دے رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے، یہاں تک کہ طاقتور تیل کے شعبے پر بھی غیر ملکی افرادی قوت کا غلبہ رہا ہے لیکن اب حکام مقامی عراقیوں کی حمایت کے لیے کوشاں ہیں۔
العقبی کا کہنا تھا، ''حکومت سے معاہدہ کرنے والی بڑی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی کارکنوں کی تعداد کو 30 فیصد تک محدود رکھیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ مقامی لیبر مارکیٹ کے مفاد میں ہے کیونکہ 1.6 ملین عراقی بے روزگار ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ہر عراقی گھرانے کو غیر ملکی گھریلو ملازم رکھنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم اس میں بھی عراقی شہریوں کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ یہ کام مقامی عراقی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں غیرملکی گھریلو ملازمین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
بیرونی ممالک سے ملازمین عراق لانے والی ایک ایجنسی کے ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''پہلے ہم 40 خواتین کو لاتے تھے لیکن اب یہ تعداد سالانہ 100 کے قریب ہے۔‘‘
اس ملازم نے بتایا کہ غیرملکی گھریلو ملازمین رکھنے کا رجحان خلیج کے امیر ممالک سے عراق میں آیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ''عراق میں حالات بہتر ہو رہے ہیں اور اب تنخواہیں زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ عراقی گھروں کے مالکان بھی آرام دہ زندگی کی تلاش میں ہیں۔‘‘
عراق میں ایک گھریلو ملازم ماہانہ تقریباً 230 ڈالر کماتا ہے لیکن حکام نے رجسٹریشن فیس کو کئی گنا بڑھا دیا ہے اور اب ایک ورک پرمٹ کی قیمت 800 ڈالر سے زیادہ ہے۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ نے عراقی حکام کی ایسی چھاپہ مار کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جن کے تحت غیرملکی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق عراقی جیلوں میں صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور وہاں رکھے جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کو انتہائی ناقص کھانے سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا رہتا ہے۔
ا ا / ش ر (اے ایف پی)