کراچی میں 1980 کی دہائی میں لڑکوں کے (یعنی ان لڑکوں کے جن کا زیادہ وقت گھر سے باہر بیتتا تھا) دو ہیروز ہوتے تھے۔ امیتابھ بچن اور عمران خان۔ بہت سے دوست امیتابھ کی طرح بال کاڑھتے، لمبی قلمیں رکھتے اور حجاموں کی جان عذاب کر دیتے تھے۔ ہمارے دوستوں میں ایک لڑکا تو امیتابھ کا شاید سب بڑا دیوانہ تھا۔ اس کی آواز خاصی باریک تھی، مگر وہ اسے امیتابھ کی طرح بھاری بھرکم بنانے کی کوشش میں ایک الگ ہی دنیا کا باشندہ سنائی دیتا۔
یہ وی سی آر، ویڈیو اور کیسٹس کا دور تھا۔ امیتابھ کی نئی فلم کا آنا یا اس کا اعلان کسی واقعے سے کم نہ ہوتا۔ ویڈیو شاپس والوں کا دھندا عروج پر تھا۔ اگر ایک عام فلم کا ایک رات کا کرایہ 10 روپے ہوتا تو امیتابھ کی فلم کا 30 روپے، جس دن 'لاوارث' ریلیز ہوئی۔ اس دن اس کے دیکھنے کا شوق میں ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں نے سارے کام کاج چھوڑ کر صرف فلم دیکھنے کی ٹھانی۔
اگر فلم پہلا، تو کراچی کے نوجوانوں کا دوسرا عشق کرکٹ تھا۔ یہ یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس دور میں بیشتر لڑکوں نے کرکٹ عمران خان کی وجہ سے شروع کی، لیکن یہ ضرور تھا کہ عمران کا بطور کھلاڑی بے پناہ ٹیلنٹ اور ان کی بین الاقوامی شہرت نے (نامور حسیناؤں سے ان کے ربط کے قصے، ان کا شرمیلا پن، وغیرہ) ان کی کرکٹ میں دلچسپی کو مہمیز بنا دیا تھا۔
میرے پیر پر تل ہے۔ میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ جس کے پیر پر تل ہوتا ہے وہ بڑا ہو کر کھلاڑی بنتا ہے۔ میں کھیلتے وقت جب باؤنڈری لائن پر کھڑا ہوتا تو تخیل میں اپنے آپ کو عمران کی طرح لڑکیوں کو آٹوگراف دیا کرتا۔
مجھے آج بھی بھارت کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ میں عمران کا ایک انتہائی خطرناک باؤلنگ اسپیل یاد ہے۔ میں اسکول سے بھاگ کر (جسے کراچی کی زبان میں ٹلا مار کر) نیشنل اسٹیڈیم گیا تھا اور باؤنڈری لائن پر بیٹھا تھا۔ میں عمران خان کی وہ گیند کبھی نہیں بھول سکتا، جس نے ایک بھارتی بیٹسمن کو چکرا کر رکھ دیا تھا (میرا خیال ہے کہ وہ بیٹسمن سندیپ پاٹل تھے)۔ گیند آف اسٹمپ کے خاصا باہر گری تھی، بیٹسمن نے گیند کو چھوڑنے کی لیے بلے کو اوپر اٹھایا تاکہ وہ وکٹ کیپر کے پاس چلی جائے، مگر گیند بجلی کی سرعت سے اندر آئی اور نہ صرف بیٹسمن کی وکٹس اکھاڑ گئی بلکہ پلک جھپکتے میرے پاس یعنی باؤنڈری لائن سے ہوتی ہوئی یہ جا وہ جا- عمران خان اپنے وقت کے خطرناک ترین باؤلروں میں سے ایک تھے۔
ایسا بھی ہوا کہ کراچی والوں نے عمران کو تنقید کا ہدف بنایا۔ میں نے یہ بات کسی سے سنی تھی کہ عمران نے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک مداح کو، جو اس کی شاندار بیٹنگ پر اسے داد دینے میدان میں آ گیا تھا، بلا مار کر پیچھے ہٹایا تھا- عمران کا گھمنڈ کراچی کے گلی کوچوں میں اور چائے خانوں میں اکثر بحث کا موضوع رہتا تھا۔
امیتابھ اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی کے قریبی دوست تھے۔ امیتابھ راجیو کے کہنے پر کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے اور عملی سیاست میں قدم رکھا دیا- مگر کچھ ہی عرصے میں جب امیتابھ کو ہتھیاروں کے اسکینڈل، جو بوفورز کے نام سے جانا جاتا ہے، میں پھنس کر بدنامی سہنا پڑی تو انہیں اندازہ ہو کہ راج نیتی کے داؤ پیچ ان کے بس کی بات نہیں اور انہوں نے سیاست کو خیر باد کہ دیا۔ وہ با وقار طور سے اپنے اصل شعبے یعنی اداکاری کی طرف لوٹ آئے۔ آج 81 برس کی عمر میں وہ اپنے سے چار گنا چھوٹی عمر کے اداکاروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور آج بھی اپنے فن سے ویسے ہی دھاک بٹھا رہے ہیں جیسے کہ 80 کی دہائی میں۔ کہتے ہیں، پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔
عمران کا 1992 کے آسٹریلیا میں کھیلے گئے کرکٹ ورلڈ کپ میں فاتح ہونے کے بعد سیاست میں آنا بہت سے لوگوں میں امید جگا گیا۔ بطور کرکٹر وہ ایک سمجھدار اور جوہر شناس شخص تھے۔ کپتان کی حیثیت سے ان کے لیے گئے فیصلے ابتدا میں عجیب سے لگتے تھے مگر بہت کم غلط ثابت ہوئے۔ اپنی ٹیم چنتے وقت، باوجود اس کے کہ ان دنوں کراچی اور لاہور کی تفریق کا بہت ذکر ہوتا تھا عمران نے (عظیم) جاوید میانداد کو ٹیم کا اہم جزو سمجھا، منصور اختر کو بار بار مواقع فراہم کیے اور محسن خان پر بھرپور اعتماد دکھایا- یہی سبب تھا کا عمران کا سیاست میں آنا ایک نئی اور امید آگیں بات لگتا تھا-
یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ سیاست اور کھیل دو یکسر مختلف شعبے ہیں؟ کھیل میں رفع دفع یا کمپرومائیز نہیں کیا جاتا، حاضر دماغی دکھانا ہوتی ہے۔ سیاست میں کمپرومائیز بھی آگے بڑھنے کی ایک راہ ہے، قطع تعلق کا کم از کم اعلان مناسب نہیں۔
کھیل میں فتح کے بعد چیخ پکار اور خوشی سے سینہ پیٹنا ٹھیک لگتا ہے۔ سیاست میں مخالف کو گالیاں بکنا بھدا سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔کھیل میں دشمن کھیل کے میدان تک دشمن رہتا ہے۔
سیاست میں کھلے میدانوں میں نعرہ بازی بعض اوقت بند کمروں اور اسمبلیوں میں ہونے والی سازشی گفتگو سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔