1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عنبرین فاطمہ کیس: حملہ آور ابھی تک گرفتار نہ ہو سکا

26 نومبر 2021

لاہور پولیس خاتون صحافی عنبرین فاطمہ پر حملہ کرنے والے ملزم کا دو دن گزرنے کے بعد بھی کوئی سراغ نہیں لگا سکی۔ ان کی گاڑی پر بدھ کے روز ایک نامعلوم شخص نے کسی آہنی چیز سے وار کیے تھے۔

https://p.dw.com/p/43Xgf
Pakistan Journalistin Unbreen Fatima attackiert
تصویر: privat

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحافی عنبرین فاطمہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک پولیس حکام ان سے ہی سوالات پوچھنے میں مصروف ہیں: ''مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ رات کو گھر سے کیوں نکلیں؟ آپ نے یہی راستہ کیوں اختیار کیا؟ آپ بچوں کو ساتھ لے کر کیوں گئیں؟ حالانکہ اس وقت واک کے لیے جانا میرا روز کا معمول ہے۔ اس رات بچوں کے ضد کرنے پر میں ان کو فورٹریس سٹیڈیم لے کر جا رہی تھی اور میں ہمیشہ اسی راستے سے گزرتی ہوں۔‘‘

روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ صحافی عنبرین فاطمہ کے مطابق علاقے کے ایس پی پولیس گزشتہ رات ان کے گھر آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ چار پانچ دن میں اس کیس کے بارے میں نتیجہ خیز پیش رفت کر لیں گے۔

یاد رہے بدھ 24 نومبر کو ایک نامعلوم شخص نے صحافی عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر کسی آہنی چیز سے تین چار وار کیے تھے اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہو گیا تھا۔ اس واقعے میں گاڑی کی سکرین ٹوٹی اور عنبرین فاطمہ کے ہاتھ پر شیشے کی کرچیاں لگنے کی وجہ سے معمولی زخم آئے تھے۔ بعدازاں  رات گئے متاثرہ خاتون کی درخواست پر  لاہور کینٹ کے علاقے غازی آباد کے تھانے میں ایک نامعلوم شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ پولیس نے اس مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 اور 427 شامل کی ہیں۔

Pakistan Journalistin Unbreen Fatima attackiert
بدھ 24 نومبر کو ایک نامعلوم شخص نے صحافی عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر کسی آہنی چیز سے تین چار وار کیے تھے اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہو گیا تھا۔تصویر: privat

اس واقعے کے بعد عنبرین فاطمہ اور ان کے دونوں بچے شدید خوف کا شکار  ہیں۔ صحافی عنبرین فاطمہ چاہتی ہیں کہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان کی صحافتی برادری اور کئی سیاسی رہنماؤں نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کیس کی تفتیش سے وابستہ ایک سینیئر پولیس افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کیس کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول اس گلی میں جہاں یہ واقعہ پیش آیا اس جگہ پر سرکاری کیمرے موجود نہیں ہیں تاہم خاتون کے گھر والی گلی اور دیگر گلیوں کے کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے تفتیش کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ تفتیشی عمل میں لاہور کے سیف سٹی کی ایک ٹیم بھی آج جمعے کے روز شریک ہوئی ہے تاہم ابھی تک کی تفتیش میں پولیس اس واقعے میں ملوث حملہ آور کے بارے میں شواہد حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اس پولیس افسر کے مطابق، ''ہمارے لیے یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایسا واقعہ ہونے کے بعد پولیس ہیلپ لائن ون فائیو پر رابطہ کیوں نہیں کیا گیا۔‘‘

عنبرین فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعے سے کچھ روز پہلے انہوں نے ایک ویب سائیٹ پر دینی مدارس، کالعدم تنظیموں اور سابق چیف جسٹس کے حوالے سے قدرے سخت زبان میں کالم لکھے تھے جس پر بعض حلقوں کی طرف سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ناپسندیدگی پر مبنی سخت ردعمل آیا تھا ان کے بقول اس واقعے میں ایسے عناصر بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ ایک صحافی پر حملہ ہے: ''پاکستان میں صحافیوں کو اغوا کرنا، انہیں غائب کر دینا یا مار دینے کے واقعات ماضی میں رونما ہوتے رہے ہیں اور بظاہر  یہ حملہ بھی ایسے ہی واقعات کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔‘‘

اس  سوال کے جواب میں کہ کیا صحافیوں کو بھی پروفیشنل حدود میں رہتے ہوئے سیاسی گروپوں کے ساتھ وابستگی ظاہر کرنی چاہیے؟ امتیاز عالم کا کہنا تھا، ''متاثرہ خاندان نہیں چاہتا کہ اس واقعے کو احمد نورانی کی آڈیو لیک کے ساتھ جوڑا جائے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر اسٹوری کا ایک سیاسی رخ ہوتا ہے۔ اگر احمد نورانی کوئی آڈیو کلپ سامنے لے کر آئے ہیں تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو چاہیے کہ اس کا جواب دیں یا عدلیہ سے رجوع کریں لیکن اسٹوری  دینے والے کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔‘‘

ابصار عالم: ’یہ فاشسٹ حکومت آزاد آوازیں دبانا چاہتی ہے‘

دفاعی تجزیہ نگار برگیڈیئر (ر) فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک خاتون صحافی پر اس طرح کے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان کے بقول اس طرح کے افسوسناک واقعے میں ملوث افراد کومنصفانہ تحقیقات کے ذریعے  قانون کے کٹہرے میں ضرور لایا جانا چاہیے۔ البتہ  فاروق حمید کہتے ہیں کہ ایسے واقعات میں تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی رائے قائم کرلینا مناسب نہیں ہے: ''پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت پہلے ہی بڑھا ہوا ہے،وکلا کے اندر بھی ثاقب نثار کے حوالے سے آنے والی وڈیو کے حوالے سے غصہ پایا جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس واقعے میں کون ملوث ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملکی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے کسی نے مذموم مقاصد کے لیے اس واقعے کے ذریعے کوئی شرارت کی ہو۔‘‘