غزہ اور اسرائیل کا بحران: جنگ بندی ہنوز دور است
19 مئی 2021غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جس میں مزید فلسطینیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فضائی بمباری میں اب تک کم سے کم 220 فلسطینی ہلاک اور پندرہ سو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 63 بچے اور 36 خواتین بھی ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں اس کے بارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس دوران منگل کے روز مقبوضہ غرب اردن کے علاقے میں اسرائیلی فورسز نے مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کردی جس میں چار مزید فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اس سے قبل اسی علاقے میں مظاہرین پر فائرنگ میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حماس اور اسلامک جہاد گروپ کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں اس کے اب تک کم سے کم 20 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن اسرائیل نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کم سے کم 130 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کی مخالفت میں اسرائیل میں رہنے والے عرب اور مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں نے منگل کے روز عام ہڑتال کی۔ یہ ہڑتال مسجد اقصی میں نمازیوں پر اسرائیلی حملے اور مشرقی یروشلم کے شیخ جراح علاقے میں صدیوں سے بسے فلسطینیوں کو وہاں سے اجاڑنے کے منصوبے کی مخالفت کے لیے بھی کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ میں کوئی پیش رفت نہیں
اس تنازعے پر 18 مئی منگل کے روز ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا تاہم اس کے 15 ارکان کسی ایک بیان پر متفق نہ ہو سکے۔ اس سے قبل اسرائیل کے حامی امریکا نے جنگ بندی نافذ کرنے اور کشیدگی کم کرنے سے متعلق ایک بیان کو ویٹو کر دیا تھا۔
فرانس نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی قرارداد کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا تھا تاہم اس بار بھی اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ عموماً سلامتی کونسل کی قراردادوں پر قانوناً عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن قرارداد کی منظوری کے لیے جہاں پندرہ رکنی کونسل کے کم سے کم نو ارکان کے مثبت ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پانچوں مستقل اراکین میں سے کسی بھی رکن کی جانب سے ویٹو نہ کرنا بھی لازمی ہے۔
عالمی برادری کا رد عمل
یورپی یونین میں خارجی امور کے سربراہ جوسیپ بوریل کا کہنا ہے کہ بلاک کے وزرا خارجہ نے حماس اور اسرائیل کے درمیان فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن 27 رکنی یونین کی جانب سے جاری ہونے والے اس بیان کی ہنگری نے حمایت نہیں کی۔
گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کے حق میں ہونے کی بات تو کہی تھی تاہم انہوں نے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے فون پر بات بھی کی تھی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ سے بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں نے، ''اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سیاسی مذاکرات کی بحالی کے لیے حالات سازگار بنانے کے مقصد سے فوری طور پر جنگ بندی کے اقدامات کی حمایت کی جانی چاہیے۔''
فرانس بھی جنگ بندی کی بات کرتا رہا ہے اور اس نے اس معاملے میں مصر کی قیادت میں ثالثی کی حمایت کی ہے۔
اسرائیل اور حماس کا موقف کیا ہے؟
عالمی رہنماؤں کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو حملے جاری رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اسرائیلی شہریوں کی بے قراری اور بے چینی دور ہونے تک جب تک ضروری ہے لڑائی جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس اور اسلامک جہاد کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ''ہم نے انہیں کئی برس پیچھے دھکیل دیا ہے۔''
ادھر نیو یارک ٹائمز نے حماس کے ایک سینیئر رہنما موسی ابو مرزوک کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلامی گروپ بھی غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کرے حماس پہلے خود یکطرفہ طور پر دو تین گھنٹے کے لیے حملے بند کرے، لیکن کیا خود اسرائیل ایسا کرے گا۔''
ابو مرزوک کا کہنا تھا کہ حماس جنگ بندی تو چاہتا ہے تاہم یکطرفہ طور پر نہیں بلکہ ایک ساتھ اور باہمی اتفاق سے۔ لیکن میڈیا کی اطلاعات کے مطابق فریقین اس کے تئیں اب بھی پر عزم نہیں ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)