1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

غیر ملکی حکومتیں افغانستان میں ہر مقصد میں ناکام رہیں، میرکل

6 دسمبر 2024

دو ہزار اکیس میں جب جرمنی نے افغانستان سے اپنی فوج کو نکالا اور طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا، تب جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل تھیں۔ رواں ہفتے جرمن پارلیمان کی انکوائری کمیٹی کے سامنے انہوں نے بطور آخری گواہ گواہی دی۔

https://p.dw.com/p/4npNv
انگیلا مرکل نے پارلیمنٹ کی انکوائری کمیٹی کے سامنے افغانستان سے انخلاء کے بارے میں گواہی دی
انگیلا مرکل نے پارلیمنٹ کی انکوائری کمیٹی کے سامنے افغانستان سے انخلاء کے بارے میں گواہی دیتصویر: Liesa Johannssen/REUTERS

افغانستان میں بین الاقوامی مشن 20 سال تک جاری رہا۔ امریکہ کی قیادت میں، جرمنی بھی، فوجی اور انسانی ہمدردی دونوں لحاظ سے، شروع سے ہی اس میں شامل تھا-

یہ مشن 15 اگست 2021 ء کو کابل میں طالبان کے صدارتی محل پر قبضے کے ساتھ ہی اچانک ختم ہو گیا۔

تب جرمن حکومت میں چانسلر انگیلا میرکل سمیت کسی نے بھی بظاہر اسلام پسندوں کی اتنی تیزی سے کامیابی کا تصّور نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ سے جرمن شہریوں اور افغان اہلکاروں دونوں کا انخلا افراتفری کا شکار ہو گیا تھا۔

افغانستان سے جرمنی کے لیے انخلا میں طالبان کی رخنہ اندازی، رپورٹ

جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں ایک تحقیقاتی کمیٹی، دو ہزار بائیس سے ہی یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ غلط فیصلہ کیسے ہوا۔ آخری گواہ کے طور پر سابق سربراہ حکومت کو قانون سازوں کے سوالات کے جوابات کئی گھنٹوں تک دینے پڑتے ہیں۔

کابل پر طالبان کے اچانک کنٹرول نے مغرب کو حیرت زدہ کردیا تھا
کابل پر طالبان کے اچانک کنٹرول نے مغرب کو حیرت زدہ کردیا تھاتصویر: Zabi Karim/AP/picture alliance

میرکل نے ایک تیار کردہ متن کو پڑھتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر امریکی قیادت میں فوجی حملے میں جرمنی کی شرکت ماضی میں بھی درست فیصلہ تھا۔ انہوں نے کچھ ایسے جملے دہرائے جو انہوں نے طالبان کی فتح کے چند روز بعد ایک حکومتی بیان میں استعمال کیے تھے۔

طالبان کے مظالم کے شکار افغانوں کے لیے جرمنی کا نیا پروگرام

میرکل نے کہا کہ ایک ''مظبوط امید‘‘ تھی کہ فوجی مداخلت افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کو روکے گی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ غیر ملکی حکومتیں افغانستان میں قانون کی حکمرانی کی حوصلہ افزائی سے لے کر خواتین کے حقوق کے مسائل تک تقریباً ہر مقصد میں ناکام رہی ہیں۔

میرکل نے کہا کہ افغانستان کے مغربی اتحادیوں کی ثقافتی ادراک کی کمی، اقربا پروری اور منشیات کی اسمگلنگ ناکامیوں کی وجوہات ہیں۔

میرکل کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر، وہ ترقیاتی تعاون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے مقامی اہلکاروں کو شامل کرنے میں زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ تاثر دینے سے بچنا چاہتی تھی کہ جرمنی افغانستان کو چھوڑ رہا ہے۔

میرکل کا بیان اس وقت ان کی کابینہ کے ایک وفاقی وزیر اور چانسلر آفس کے چیف اور میرکل کے معتمد، ہیلگے براؤن کی گواہی سے مطابقت رکھتا ہے، جنہوں نے میرکل کی چانسلری کے دور میں جرمن حکومت کی افغانستان پالیسی کو تیار کیا تھا۔ انکوائری کمیٹی نے میرکل کے سامنے براؤن سے براہ راست پوچھ گچھ کی۔

افغانستان میں جرمن دستوں کے درجنوں سابق مقامی معاونین ہلاک

پارلیمنٹ کی تحقیقاتی کمیٹی جرمن حکومت اور انٹیلی جنس سروسز کے فیصلہ سازی کے طریقہ کار اور اقدامات بشمول غیر ملکی فریقین کے ساتھ بات چیت کا جائزہ لے رہی ہے۔

اسے  پارلیمنٹ کی  موجودہ مدت فروری 2025 ء میں ختم ہونے سے پہلے اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنا ہو گی۔

انگیلا میرکل اور ان کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس
انگیلا میرکل اور ان کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس (دایئں) افغانستان سے فوج کے انخلاء کے وقت اپنے عہدے پر تھےتصویر: Florian Gaertner/photothek/IMAGO

’شفاف اور مکمل‘

میرکل کے دور کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس اور وزیر ترقیات گیرڈ مئیولر اس وقت کے آخری عہدیداروں میں شامل تھے جن سے پوچھ گچھ کی گئی۔ طالبان کے افغان دارالحکومت میں کسی مزاحمت کے بغیر داخل ہونے سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے ماس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کا امکان بہت کم ہے۔

انہوں نے بعد میں کہا، ''ہم سب — جرمن حکومت، انٹیلی جنس سروسز، بین الاقوامی برادری — ہم سب نے صورتحال کا غلط اندازہ لگایا۔‘‘

اب، تین سال بعد، انکوائری کمیٹی نے ماس سے افغانستان میں جرمن حکومت کی پالیسی کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے کہا تو ماس کا کہنا تھا، ''حکومت کے اندر باہمی تعاون بہت شفاف اور مکمل تھا۔‘‘

ماس نے تسلیم کیا کہ، کچھ مخصوص حقائق پر مبنی مسائل پر، مختلف توضیحات ضروری تھیں۔

ماس نے کہا، ''لیکن ہر ایک نے صورتحال کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے انتقام سے خوفزدہ افغان اہلکاروں کے لیے ویزے کا اجراء بہتر طریقے سے کیا جا سکتا تھا۔ ''اگر کوئی معاہدہ زیادہ تیزی سے طے پا جاتا تو ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی افغانستان سے نکال لیا جاتا۔‘‘

افغانستان میں طالبان کی مختصر تاریخ

ج ا ⁄ ک م  (مارسیل فرسٹیناؤ)

اصل مضمون جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔