فلوجہ: عراقی حکومت کی آزمائش کا مقام
11 جنوری 2014عراق کے صوبے الانبار کے ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ خضیر شلال نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ گزشتہ دوہفتوں کے دوران 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شلال کے مطابق انتہا پسند جنگجوؤں اور عراقی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران 43 افراد رمادی جبکہ 17 فلوجہ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 300 کے قریب بتائی گئی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگلے دنوں میں کسی بڑی لڑائی کی صورت میں فریقین کے ساتھ ساتھ عام سویلین ہلاکتوں کا بھی امکان ہے۔
الانبار میں موجودہ صورتحال گزشتہ برس 28 دسمبر سے شروع ہوئی جب حکومت نے عسکریت پسندوں کے ایک کیمپ کو زبردستی ختم کر دیا تھا اور اُس کے بعد القاعدہ سے وابستگی رکھنے والی انتہا پسند تنظیم اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے مسلح جنگجوؤں نے مقامی گروپوں کی مدد سے فلوجہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے علاوہ صوبائی صدر مقام رمادی کے بعض حصوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ الانبار صوبے کی صورت حال پر جہاں نوری المالکی کی حکومت پریشان ہے وہیں اُس کے بڑے اتحادی امریکا نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
انتہا پسندوں کے قبضے میں آئے ہوئے شہر فلوجہ کے اندر مقامی لوگوں نے خود کو مسلح کرنا شروع کر دیا ہے اور ان میں کچھ ایسے گروپ بھی ہیں جو عراق میں امریکی فوج کے خلاف بھی مسلح کارروائیوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ عراق میں پانچ ہزار کے قریب مرنے والے امریکی فوجیوں میں سے ایک تہائی کی ہلاکت فلوجہ میں ہوئی تھی۔ اِس میں سن 2004 میں ہونے والی فلوجہ کی جنگ بہت اہم خیال کی جاتی ہے۔ امریکی کمانڈوز کو فلوجہ میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اِس تناظر میں بغداد حکومت کو فلوجہ پر دوبارہ قبضے کے لیے بڑی مشکل اور آزمائش کا سامنا ہے۔
عراقی صوبہ الانبار کے صدر مقام رمادی سے جاری ہونے والے ایک اعلان کے مطابق شہر کے نواحی علاقوں مالعب اور فُرسان کو انتہا پسندوں کے قبضے سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع نے خیال ظاہر کیا ہے کہ القاعدہ سے وابستگی رکھنے والی تنظیم اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے جنگجوؤں کی گرفت اب فلوجہ اور رمادی کے بعض حصوں پر کمزور ہونے لگی ہے۔ تاہم اِس وقت بھی فلوجہ شہر پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ اسی طرح رمادی شہر کے بعض علاقے انتہا پسندوں کے قبضے میں ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں نے بتایا ہے کہ مقبوضہ مقامات میں عام لوگوں تک رسائی ناممکن ہو چکی ہے۔ مقبوضہ مقامات میں عام لوگ ضروریات زندگی کے لیے پریشان ہیں۔ دریں اثنا امریکا نے بغداد حکومت سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ وہ سیاسی مصالحت کے عمل کو شروع کرے۔ اِس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے عراق میں ایک مرتبہ پھر امریکی فوجوں کو بھیجنے کی نفی کر دی تھی۔