نو مئی کے احتجاج پر پچیس ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں
21 دسمبر 2024پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں نے گزشتہ سال نو مئی کو پر تشدد احتجاج میں ملوث ہونے کے الزام میں 25 ملزمان کو سزائیں سنا دی ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملزمان کی اکثریت کو ایک دہائی طویل قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو مئی 2023 میں ان کے عہدے سے ہٹائے جانے اور ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مہم چلانے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
عمران خان کی بدعنوانی کے الزامات پر حراست نے ملک بھر میں بدامنی کو جنم دیا، کچھ مظاہرین نے مسلح افواج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے بعد فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف غیر معمولی مقدمات چلائے گئے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس اقدام کو 'اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا، ڈرانے کا ایک حربہ‘ قرار دیا۔ فوجی عدالتوں کی کاروائیاں بڑی حد تک مبہم رہتی ہیں، لیکن کئی مہینوں کی رازداری کے بعد ملٹری پبلک ریلیشنز ونگ نے ان 25 افراد کے نام بتائے، جن پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔
تمام مجرم مرد ہیں اور ان میں سے 14 کو دس دس سال ''سخت قید‘‘ کی سزائیں سنائی گئی ہے، باقی 11 کو نسبتاﹰ کم قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔ فوجی بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ہر فرد کو کس جرم میں سزا سنائی گئی ہے، صرف ان کے جرم کی جگہ کی فہرست دی گئی ہے۔
اس فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023 کی بدامنی کے دوران پاکستان میں ''متعدد مقامات پر سیاسی اشتعال انگیزی، تشدد اور آتش زنی کے المناک واقعات دیکھے گئے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے،''تشدد کی ان صریح کارروائیوں نے نہ صرف قوم کو صدمہ پہنچایا بلکہ سیاسی دہشت گردی کی اس ناقابل قبول کوشش کو روکنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔‘‘
آئی ایس پی آرکا کہنا تھا کہ یہ سزائیں ''تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں کبھی قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور یہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہیں، جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘
آئی ایس پی آر کے مطابق جن 25 ملزمان کو سزائیں دی گئی ہیں، ان میں سے گیارہ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس، دو پر جی ایچ کیو، دو پر میانوالی ایئر بیس اور ایک پر فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کا الزام تھا۔ جبکہ دو پر ملتان کینٹ چیک پوسٹ اور پانچ پر پنجاب رجمنٹل سينٹر مردان پر حملے کا الزام تھا۔
آئی ایس پی آر نے اس بیان میں مزید کہا، ''صحیح معنوں میں مکمل انصاف اس وقت ہوگا جبب نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی۔ نو مئی کے مقدمے میں انصاف فراہم کر کے تشدد کی بنیاد پر کی جانے والی گمراہ اور تباہ کُن سیاست کو دفن کیا جائے گا۔‘‘
فوج کا مزید کہنا ہے، ''دیگر ملزمان کی سزاؤں کا اعلان بھی ان کے قانونی عمل مکمل کرتے ہی کیا جا رہا ہے۔ متعدد ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی مختلف عدالتوں میں بھی مقدمات زیر سماعت ہیں۔‘‘ تاہم اس فوجی بیان کے مطابق ''تمام سزا یافتہ مجرموں کے پاس آئین اور قانون کے مطابق اپیل اور دیگر قانونی چارہ جوئی کا حق ہے۔‘‘
سابق کرکٹ اسٹار اورتحریک انصاف کے بانی عمران خان نے 2018 سے 2022 تک وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں، ان کی اقتدار سے معزولی پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں ہوئی تھی، انہوں نے اپنی حکومت کے زوال کا ذمہ دار طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کے سربراہ کو ٹھہرایا تھا۔
پاکستان میں جرنیلوں کو ملک کا سیاسی کنگ میکر سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے ایک وقت میں کئی دہائیوں تک براہ راست قوم پر حکومتیں بھی کی ہیں۔ خان کی مئی 2023 کی نظر بندی چند دنوں تک جاری رہی لیکن تین ماہ بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد سے وہ جیل میں بند ہیں۔ انہیں متعدد بدعنوانی اور فوجداری مقدمات کا سامنا ہے، تاہم خان کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی ہیں۔
دریں اثناء عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو نو مئی کے بدامنی کے واقعات کے بعد بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا، ان کے ہزاروں حامیوں، پارٹی ورکروں اور سینئر عہدیداروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
72 سالہ عمران خان کو فروری میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔ ریاستی کریک ڈاون کے باوجود پی ٹی آئی نے کسی بھی دوسری پارٹی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیتیں، لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ قابل قبول سمجھی جانے والی پارٹیوں کے ایک اتحاد نے حکومت بنائی اور پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
گزشتہ ماہ بھی پی ٹی آئی کے تازہ مظاہروں اور بدامنی نے دارالحکومت اسلام آباد کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔ پی ٹی آئی کے ہزاروں حامیوں نے پارلیمنٹ کی دہلیز پر واقع ڈی چوک پر دھرنا دینے کی کوشش کی تھی لیکن سکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن کے نتیجے میں مظاہرین کو پیچھے ہٹنا پڑ گیا تھا۔
ش ر⁄ ع س (اے ایف پی)