قصور اسکینڈل، بچوں سے زیادتی کے بارہ ملزمان بری کر دیے گئے
24 فروری 2018قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کرنے اور پھر اُن کی ویڈیوز بنا کر اُن کے والدین کو بلیک میل کرنے کا یہ اسکینڈل اگست سن دو ہزار پندرہ میں منظر عام پر آیا تھا۔ حکام نے اسے ملک میں اپنی نوعیت کا اب تک کا ہونے والا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا تھا اور صوبہ پنجاب میں اس کے متاثرین کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ دو ملزمان کو گزشتہ برس عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
چار سالہ پاکستانی بچی پر جنسی حملہ اور قتل: دو ملزم گرفتار
عدالت کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جج چوہدری الیاس نے ملزمان کو ایک نو عمر لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس عمل کی ویڈیو بنا کر اس کے خاندان کو بلیک میل کرنے کے الزام سے بری کر دیا ہے۔
عدالتی اہلکار کے مطابق استغاثہ نے ان ملزمان کے خلاف سولہ افراد کو بطور گواہ پیش کیا تھاتاہم ان پر عائد الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔ عدالت میں کام کرنے والے ایک اور کارکن نے بھی ان تفصیلات کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور کے ایک گاؤں حسین خان والا میں ایک گروہ نے کم از کم دو سو اسّی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنائی تھیں۔ ان ویڈیوز کو عام کرنے کی دھمکی دے کر ان بچوں کے والدین کو مبینہ طور پر بدنام کیا جاتا تھا۔
ایتھنز: نو عمر پاکستانی جسم فروش، حقیقت یا افسانہ؟
’پاکستانی مدارس میں جنسی استحصال ایک عام سی بات‘
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد جنسی زیادتی کا شکار بننے والے بچوں کے والدین نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے۔ احتجاج کرنے والے والدین کا کہنا تھا کہ قصور ضلعے کی پولیس نے اُن کی شکایات پر کوئی کان نہیں دھرا اور نہ ہی پولیس نے اس بارے میں چھان بین کی تھی۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اس اسکینڈل سے متعلق سنگین حقائق کے سامنے آنے پر ایسے پولیس افسروں کا دوسرے اضلاع تبادلہ کر دیا گیا تھا جن پر اس سلسلے میں لاپرواہی کے الزامات عائد تھے۔