1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

قطر افغانستان میں امریکا کے سفارتی مفاد کی نمائندگی کرے گا

13 نومبر 2021

امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی مدد اور طالبان سے رابطوں کے لیے کابل میں قطر کے ماتحت امریکی مفاد کا بھی ایک سیکشن قائم کرے گا۔ دونوں ممالک نے اس حوالے سے واشنگٹن میں ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/42x2d
USA Washington | Treffen von Antony J. Blinken und Mohammed bin Abdulrahman Al Thani
تصویر: Olivier Douliery/REUTERS

امریکا اور قطر نے 12 نومبر جمعے کے روز اس بات پر اتفاق کر لیا کہ افغانستان میں دوحہ امریکا کے بھی سفارتی مفادات کی نمائندگی کرے گا، اس طرح گزشتہ اگست میں فوجی انخلاء کے بعد کابل میں امریکا کی جانب سے سرکاری سطح پر یہ پہلی نمائندگی ہو گی۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گيا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلِنکن اور ان کے قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے جمعے کو واشنگٹن میں اسٹریٹیجک تعاون سے متعلق دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت افغانستان میں قطر امریکی مفادات کے لیے، "حفاظتی قوت" کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔

یہ ایک ایسا انتظام ہے جس کے تحت میزبان ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے سبب، ایک تیسرا ملک ایک دیگر ملک کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ 

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن میں شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی  کے ساتھ ایک بیان میں کہا، ’’قطر علاقائی استحکام کو فروغ دینے میں ایک اہم شراکت دار ہے۔‘‘ یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا ہے جب قطری وفد دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے لیے واشنگٹن کے سفر پر ہے۔

امریکا نے اس حوالے سے کیا کہا؟

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ’’قطر افغانستان میں اپنے سفارت خانے کے اندر امریکی مفادات کے لیے بھی ایک سیکشن قائم کرے گا تاکہ اس کی مدد سے بعض قونصلر خدمات فراہم کرنے کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکی سفارتی تنصیبات کے حالات اور سکیورٹی کی بھی نگرانی کی جا سکے۔"

قطر اور امریکا نے دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جس میں سے پہلا کابل میں امریکا کے سفارتی مفاد کی نگرانی کرنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "دوسرا معاہدہ قطر کے ساتھ ہماری شراکت داری کو باضابطہ بناتا ہے تاکہ جن افغانوں کے پاس خصوصی امیگرنٹ ویزا ہے انہیں امریکا سفر کرنے کی سہولت فراہم کی جا سکے۔"

Afghanistan Taliban-Vertreter führen in Doha Gespräche mit US-amerikanischen und europäischen Delegierten
تصویر: Stringer/REUTERS

اس موقع پر انٹونی بلینکن نے اپنے قطری ہم منصب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’ایک بار پھر سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم آپ کی قیادت کے لیے اور افغانستان پر آپ کی حمایت کے لیے آپ کے بہت شکر گزار ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری شراکت داری اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔‘‘

قطر کا کیا کہنا ہے؟

قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کا کہنا تھا، ’’ہم افغانستان کے استحکام اور افغان عوام کی سلامتی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پوری طرح سے وقف ہیں۔‘‘ اس حوالے سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گيا کہ افغانستان میں ’’اعتدال پسند اور محتاط پالیسیوں‘‘ کے نفاذ کے لیے مستقل کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

قطری وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ’’افغانستان کے حالات کے پیش نظر، یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ مجموعی طور پر افغانستان کی صورت حال ایک پیچیدہ صورت حال ہے، لہذا یقینی طور پر، بہت سارے پیچیدہ مسائل ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

 اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ترکی کے ساتھ مل کر قطر نے اب تک 15 چارٹیڈ فلائٹس بھیجی ہیں اور اس نے کابل ایئر پورٹ کی مرمت کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔

Afghanistan Taliban-Vertreter führen in Doha Gespräche mit US-amerikanischen und europäischen Delegierten
تصویر: Stringer/REUTERS

قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو اس وقت شدید مدد کی ضرورت ہے، ’’خاص طور پر موسم سرما میں انہیں امداد چاہیے ہو گی۔ افغانستان کو یونہی چھوڑ دینا ایک بہت بڑي غلطی ہو گی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’چونکہ اس وقت اقتدار طالبان کے پاس ہے، اس لیے ہمارا ماننا یہ ہے کہ ان کے ساتھ بات چیت کرنا بہت اہم ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انسانی امداد پہنچانے میں ہمارے لیے آسانی ہو اور اسے آسانی سے آگے بڑھا یا  جا سکے۔‘‘

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے کابل اور واشنگٹن کے درمیان کوئی سفارتی رابطہ نہیں ہے اور تب سے کابل کے قطری سفارت خانے سے قونصلر سروس مہیا کرنے کی امریکا کی یہ پہلی کوشش ہے۔ اس سے قطر امریکا کے مزید قریب آگیا ہے اور یہ اس کے لیے بھی ایک سفارتی جیت ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ وہ اس سلسلے میں طالبان کے الفاظ کے بجائے ان کے اعمال پر انہیں پرکھنے کے بعد اس کا فیصلہ کریں گے۔

ان کا زور اس بات پر ہے کہ طالبان اپنی حکومت میں تمام افغان حلقوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی خواتین اور انسانی حقوق کا خاص طور پر خیال رکھیں نیز افغانستان کی سرزمین کو ایک بار پھر سے دہشت گردو گروپوں کا اڈہ بننے سے بچانے کی ضرورت ہے۔

ص ز/ ع ت  (اے پی، اے ایف پی)

قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں