لانگ مارچ کے آغاز کے بعد اسلام آباد میں بے چینی
12 مارچ 2009اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جمعرات کی صبح پہلے امریکی ایلچی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ ہالبروک نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک ٹیلی فون گفتگو میں حالات کا جائزہ لیا، دوسری طرف امریکی سفیر این پیٹرسن نے علی الصبح رائے ونڈ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات میں ان کی آئندہ دنوں کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔ برطانوی، جرمن اور کینیڈین سفارتکار بھی دن بھر دفتر خارجہ اور وزارت داخلہ کے افسران کے ذریعے حالات جانچنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
اخباری رپورٹوں کے برعکس صدر آصف علی زرداری جمعرات کی صبح ایران سے واپس اسلام آباد پہنچے اور دارالحکومت میں ان کی غیر موجودگی میں صدر کے مستقبل پر بھی کافی افواہیں گشت کرتی رہیں تاہم صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بذریعہ ٹیلی فون ڈائچے ویلے کو بتایا کہ حالات پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور صورتحال جلد ہی بہتر ہو جائے گی۔
پیپلز پارٹی کے اندر موجود ہیجان کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بانی ارکان میں شمار ہونے والے صفدر عباسی اور ناہید خان نے بھی وکلاء کے مارچ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی آج ایک پریس کانفرنس میں پنجاب میں نافذ گورنر راج کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔
’’ اگر میں گورنر راج کی مخالفت کرتا ہوں تو میرا یہ نظریہ ہے کہ اسمبلی کو فیصلہ کرنے دیں۔اکثریت جس کے پاس ہے وہ اپنی حکومت قائم کرے فرد واحد کو کیوں اختیار دیتے ہیں اختیار اسمبلی کا ہے گورنر ہاؤس کا نہیں۔‘‘
پیپلز پارٹی کے کئی ارکان سمیت اس کے اکثر اتحادی بھی گورنر راج کو صورت حال کی خرابی کا بڑا سبب قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں گورنر راج کے ذریعے نواز لیگ کو صوبائی حکومت سے محروم کر کے شریف برادران کو عوامی رابطہ مہم اور وکلاء مارچ کی غیر مشروط حمایت پر مجبور کیا گیا۔ جس کے باعث ملک پر ایک بار پھر سیاسی بے یقینی کے بادل گہرے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔