لاکھوں افراد کی ممکنہ ملک بدری امریکی معیشت کے لیے خطرہ بھی
7 دسمبر 2024پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 2022 میں تقریباً 8.3 ملین غیر قانونی تارکین وطن امریکہ میں مقیم تھے، جو کہ ملک کی کل افرادی قوت کا تقریباً پانچ فیصد تھے۔
رواں سال انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’آج ہمارے شہروں میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''امریکی شہریوں سے نوکریاں چھینی جا رہی ہیں۔‘‘
ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں سے سب سے زیادہ نقصان ان صنعتوں کو ہو گا جو پہلے ہی مقامی افراد کو بطور ملازمین اپنی طرف مائل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
امریکن امیگریشن کونسل (اے آئی سی) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تعمیرات اور زراعت کے شعبے میں ہر آٹھ میں سے ایک کارکن کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا، جبکہ ہوٹل کے شعبے میں ہر چودہ میں سے ایک کارکن کو غیر قانونی حیثیت کی وجہ سے ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ جس کے باعث ان شعبوں میں نہ صرف کام کا دباؤ بڑھ سکتا ہے بلکہ پیداوار میں کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔
اس پالیسی سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے
اس کے علاوہ نئی حکومتی پالیسیاں 30 فیصد سے زائد راج مستری، چھتوں کی مرمت کرنے والوں، رنگ و روغن کرنے والوں، اور ہاؤس کیپنگ کلینرز کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے نتیجے میں 2025 میں امریکہ کی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.4 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
بنیادی طور پر غیر ملکی ملازمین کی تعداد میں نمایاں کمی کے نتیجے میں صنعتی پیداوار میں کمی آ سکتی ہے، جو معیشت کی مجموعی ترقی کو سست کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، صارفین کی تعداد میں کمی بھی معیشت کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کی مدتِ صدارت کے دوران مجموعی طور پر 3.2 ملین افراد کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق 8.3 ملین غیر قانونی کارکنوں کو ملک بدر کیے جانے کی صورت میں 2028 تک امریکہ کی اقتصادی ترقی میں اتنی کمی واقع ہو سکتی ہے کہ وہ موجودہ تخمینوں سے 7.4 فیصد کم ہو جائے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2026 تک مہنگائی میں بھی 3.5 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس منصوبے کا نفاذ آسان نہیں
تحقیقاتی ادارے اے ای آئی کے شعبہ برائے اقتصادی پالیسی کے ڈائریکٹر مائیکل اسٹرین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیاں ’’مخصوص شعبوں میں اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں، اور یہ اضافہ صرف ان شعبوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مجموعی افراط زر میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
تاہم بعض ماہرین کے مطابق بڑے پیمانے پر ملک بدری کا افراط زر پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ زراعت اور تعمیرات جیسے شعبوں میں قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے، لیکن دیگر شعبوں جیسے ہاوسنگ میں مانگ میں کمی کے باعث قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے، جس سے مجموعی افراط زر پر اس کا اثر محدود ہو جائے گا۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کو قانونی، مالی اور انتظامی مشکلات کی وجہ سے عملی طور پر نافذ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس کے نتیجے میں، اگلے سال امریکہ میں آنے والے غیر ملکی افراد کی تعداد میں تھوڑی کمی آ سکتی ہے، مگر یہ کمی کووڈ سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں بہت زیادہ نہیں ہو گی۔
ماہرین کے مطابق، سخت امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں ہر سال آنے والے غیر ملکی افراد کی تعداد میں کمی آئے گی۔ ان کا تخمینہ ہے کہ یہ تعداد سالانہ سات لاکھ پچاس ہزار تک محدود ہو جائے گی، جو وبا سے قبل کی اوسط تعداد، یعنی دس لاکھ سالانہ سے کم ہے۔
ح ف / ج ا (اے ایف پی)