لخضر براہیمی دمشق میں: مصالحت کی ایک اور کوشش
19 اکتوبر 2012بحران زدہ ملک شام سے مسلسل جھڑپوں اور شامی فوج کے فضائی حملوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شامی طیاروں نے آج باغیوں کے اُس گاؤں پر شدید حملہ کیا ہے جہاں شامی فوج کی گزشتہ روز سے کارروائی جاری ہے۔ شامی فوج پر اس علاقے پر کلسٹر بموں کے استعمال کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے۔
آج شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخضر براہیمی شامی فوج اور باغیوں کے مابین مصالحت اور فائر بندی کی کوشش کے سلسلے میں ایک بار پھر دمشق پہنچ گئے ہیں۔ براہیمی 26 اکتوبر کو مسلم دنیا میں منائے جانے والے تہوار عید الضحیٰ کی تعطیلات سے پہلے شام پہنچے ہیں تاکہ حکومت اور باغیوں کو 19 ماہ سے جاری اور 34 ہزار انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والی جنگ بند کرنے پر آمادہ کر سکیں۔
قبل ازیں لخضر براہیمی نے گزشتہ سنیچر کو صدر بشار الاسد سے ملاقات کی تھی۔ اس بارے میں شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے خبر دی تھی تاہم اس ملاقات سے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔شام پہنچنے سے پہلے براہیمی نے کہا تھا ’شام کا بحران بگڑتا جا رہا ہے اور خون خرابے کو روک کر امن کو بحال کرنا بہت مشکل ہوگا۔‘
اُدھر شام میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ایک کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ شامی حکومت اور باغیوں کے مابین تنازعے میں غیر ملکی اسلامی شدت پسندوں کا کردار خطرناک رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔
کمیشن کے مرکزی تفتیش کار پاؤلو سرجیو پنہیرو کا کہنا ہے کہ ’شدت پسند‘ نظریات کے حامی سینکڑوں اسلامی جہادیوں کی شام میں موجودگی خطرناک ہے۔ مزید یہ کہ شام میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھی شدید اضافہ ہوا ہے اور اس میں غیر ملکی شدت پسند غیر معمولی کر دار ادا کر رہے ہیں۔ براہیمی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ شامی حکومت کے اندازوں کے مطابق ملک میں دیگر ملکوں سے آئے ہوئے جنگجوؤں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
دریں اثناء بشار الاسد کی حامی فورسز اور باغیوں کے مابین شام کے دو بڑے شہروں کو ملانے والی شاہراہ پر قائم شہر معرة النعمان سے شدید جھڑپوں کی اطلاع ہے۔ اے ایف پی کے ایک نمائندے کے مطابق اسی جگہ گزشتہ روز شامی فوجی حملوں میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں قریب نصف تعداد بچوں کی تھی۔
باغیوں نے اے ایف پی کے رپورٹروں کو وادی دیف میں اپنے کیمپس پر گرنے والے کلسٹر بموں کے ٹکڑے دکھائے۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جنگی طیاروں نے اس علاقے میں باغیوں کے اُن کیمپوں کو ہدف بنایا ہے جہاں ایندھن اور اسلحے کے اسٹوریج موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے درجنوں بم بھی دکھائے، جو پھٹ نہیں سکے۔ ان کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ شام کے قریبی حلیف روس میں تیار شدہ ہیں۔
دریں اثناء شامی حکومت نے ہیومن رائٹس واچ کے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شامی فورسز کلسٹر بموں کا استعمال کر رہی ہیں۔ دمشق حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کی فورسز کے پاس کلسٹر بم ہیں ہی نہیں۔
km/ai (AFP)