ماحولیاتی تبدیلیاں، ترقی پذیر ممالک عالمی عدالت میں
14 دسمبر 2024ترقی پذیر ممالک نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار ٹھہرائے۔
گذشتہ دس روز سے عالمی عدالت برائے انصاف میں مختلف ممالک اور تنظیموں کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور فضا میں کاربن گیسوں کی مقدار میں اضافے کی ذمہ داری سے متعلق دلائل دیے جا رہے ہیں۔
اس دوران 100 سے زائد اسپیکروں نے عدالت میں اپنی بات رکھی۔ ان میں دنیا کی بڑی معیشتوں کے سفیروں سے لے کر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بقا کے خطرے سے دوچار چھوٹے جزیرہ ممالک کے نمائندے بھی شامل تھے جو پہلی بار اقوام متحدہ کی اس اعلیٰ ترین عدالت میں پیش ہوئے۔
ماہرین اس سماعت کو ''ڈیوڈ بمقابلہ گولیتھ‘‘ کی کشمکش قرار دیتے رہے ہیں، جہاں زیادہ آلودگی کی موجب طاقتوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک کے درمیان واضح تقسیم دیکھی گئی۔
امریکہ، چین اور بھارت جیسے بڑے طاقتور ممالک نے ججز کو خبردار کیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے موجودہ قانونی ڈھانچے سے آگے نہ بڑھیں۔ تاہم چھوٹے ممالک کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن (UNFCCC) کے تحت موجودہ قوانین ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
اناسی افریقی، کیریبین اور پیسیفک ممالک کے گروہ کی نمائندگی کرنے والی کرسٹیل پرات نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ترقی یافتہ ممالک کے رویے پر '' گہری مایوسی‘‘ ہے، تاہم یہ رویہ غیر متوقع نہیں تھا۔
انہوں نے کہا، ''اس عالمی بحران سے لڑنے کے لیے ہم صرف ماحولیاتی معاہدوں پر انحصار نہیں کر سکتے ۔ ہمیں بین الاقوامی قانون کے پورے ڈھانچے کو از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے اور ہمیں یہانصاف اور مساوات کے لیے کرنا ہوگا۔ اس سیارے پر ہر انسان کو ایک باعزت زندگی گزارنے کا حق ہے۔‘‘
آئی سی جے کے 15 ججز پر مشتمل پینل کو دو سوالات کے جواب دینے کے لیے ایک مشاورتی رائے تیار کرنے کا کہا گیا ہے۔ پہلے سوال میں یہ پوچھا گیا ہے کہ مختلف ممالک پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے کیا قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان ممالک کے لیے کیا قانونی نتائج ہوں گے جن کی پیدا کرہ آلودگی نے ماحول کو نقصان پہنچایا؟
ع ت، ع س (روئٹرز، اے ایف پی)