جب کوئی قوم ماضی کے بوجھ تلے دب جاتی ہے تو وہ اپنے اردگرد کی دنیا سے ناواقف ہوکر اپنے ذہن کو ماضی کی یادوں میں قیدکر کے نئی سوچ اور فکر سے بے خبر ہو جاتی ہے۔ برصغیر کے مسلمان ماضی کے کئی بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک بوجھ ابتدائی اسلامی تاریخ کا ہے، جو عباسی خاندان تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ بوجھ مسلمانوں میں فخر کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد وسط ایشیا اور افغانستان کی تاریخ کا بوجھ ہے۔ جس میں غزنوی اور غوری خاندان شامل ہیں۔
صلیبی جنگوں اور اندلس میں مسلمانوں کی بے دخلی کا بوجھ بھی شامل ہوکر اس وزن میں اضافہ کرتا ہے اور آخر میں خلافت عثمانیہ کا بوجھ بھی ان کے حصے میں آجاتا ہے۔ ہندوستانی تاریخ کا عہد سلاطین اور مغلیہ دور حکومت کا بوجھ اور اس کی یادیں تو تازہ ہیں۔ ماضی کے ان تمام بوجھوں کو برداشت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ شاندار ماضی کا تصور پیش کیا جائے اور ایسی شخصیتوں کو سامنے لایا جائے، جنہوں نے ماضی کو شاندار بنانے میں حصہ لیا تھا۔
ماضی کے ان سورماؤں میں جنگجوئوں اور فاتحین کے کارنامے شامل ہیں۔ ان کی فتوحات کے تذکرے ہیں۔ ان کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں ہیں۔ ان سورماؤں میں عالموں اور دانشوروں کا ذکر بہت کم ہے۔ اس شاندار ماضی کو شاعری، ناولوں، افسانوں اور فلموں کے ذریعے پیش کر کے لوگوں کو ذہنی طور پر مطمئن کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کا ذہن اجتماعی طور پر ماضی کے اندھیرے میں گم رہتا ہے اور حال کے تمام وسائل کے حل کے لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ درخشاں ماضی کو واپس لایا جائے اور اب ہمیں کسی نئے نظریے یا فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پاس کامیاب ماضی کی تاریخ ہے۔ معاشرہ اس تاریخ کو دہراتا رہتا ہے اور ہر نئی تبدیلی سے گریز کرتا ہے۔
ماضی کا یہ بوجھ دو قسم کے نظریات کو پیدا کرتا ہے۔ ایک میں ماضی کی تاریخ پر فخر ہوتا ہے اور دنیا کو اس کے احسانات گنوائے جاتے ہیں۔ دوسرا ماضی کی تلخ یادیں بھی ہوتی ہیں، جو قوموں کو ان کی شکست و زوال سے آگاہ کر کے ان میں احساس کمتری پیدا کرتی ہیں۔ یہاں ہم ہندوستان سے تعلق رکھنے والی تاریخ کا تجزیہ کریں گے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس پر فخر ہے کہ انہوں نے یہاں ایک ہزار سال تک حکومت کی جبکہ ہندو انتہا پسند مؤرخ عہد وسطیٰ کی تاریخ اور اس کے بوجھ کی تلخیوں کو یاد کرتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب سے بھارت میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے وہ عہد وسطیٰ کی تاریخ کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کی دلیل کے مطابق عہد وسطیٰ میں ہندو قوم مسلم حکمرانوں کے تسلط میں رہ کر اپنی تہذیب اور کلچر میں ترقی نہیں کر سکی۔ نہ ہی وہ سماجی علوم اور سائنس میں اضافہ کر سکی۔ مسلم حکمرانوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے وہ اپنی صلاحیتوں سے محروم ہو گئے۔ اس لئے عہد وسطیٰ کی تاریخ ان کے لئے تلخیوں کا ایک ذخیرہ ہے اور یہ تلخیاں اسی وقت ختم ہوں گی جب اس عہد کے آثار اور نشانات کو مٹا دیا جائے۔
بی جے پی کا پہلا نشانہ عہد وسطیٰ کے مسلمان حکمرانوں کی تعمیر شدہ یادگار عمارتیں ہیں۔ 1992ء میں بابری مسجد کو مسمار کر کے اس ذہنیت کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان عمارتوں کو مسمار کرنے کے علاوہ ان مقامات کو ہندو حکمرانوں سے منسوب کرنے کی مہم بھی جاری ہے۔ جیسے تاج محل کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ ایک مندر تھا اور یہ کہ شاہ جہاں نے اسے ایک مقبرے میں تبدیل کر دیا۔
بی جے پی عہد وسطیٰ کی تاریخ کو مسخ کر کے یا اس کے وجود سے انکار کر کے قدیم اور شاندار ہندو ماضی کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تاریخ ایک بار پھر فرقہ وارانہ تعصبات کی اسیر ہو گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان اور ہندو دونوں ہی ماضی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ اس بوجھ کو اُتار پھینکیں اور حالات کے مطابق نئی زندگی شروع کریں۔
ہمارے سامنے یورپی ملکوں کی مثال موجود ہے۔ انگلستان اور فرانس نے ایک بڑا وقت آپس کی لڑائیوں میں گزارا۔ جرمنی اور فرانس کے درمیان جھگڑے رہے۔ آسٹریا، اٹلی اور سپین بھی جنگوں میں مبتلا رہے۔ یہاں تک کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں نے یہ سبق دیا کہ ماضی کے بوجھ اور اس کی تلخیوں سے نجات پاکر امن و امان کو قائم کریں اور ایک دوسرےکے ساتھ مل کر ترقی کے راستے ہموار کریں۔
اس کی ایک اور مثال ہمارے سامنے چین کی ہے۔ یورپی اقوام نے چین پر حملے کر کے اور اسے شکستیں دے کر اس کی بندرگاہوں پر قبضے کیے۔ اس کی دولت کو لوٹا لیکن چین کی انقلابی حکومت نے اپنی شکستوں کا بدلہ لینے کے لئے نہ تو ان ملکوں پر حملے کیے اور نہ ہی ان سے جنگ کی بلکہ خود کو طاقتور اور مضبوط بنا کر قدیم چین کے ماضی کے بوجھ کو بھی اُتار پھینکا اور تاریخ کی تلخیوں کو بھول کر اپنی ذہانت اور صلاحیت سے معاشرے میں امن و امان قائم کیا اور لوگوں کو غربت سے نکالا۔
تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ماضی کے بوجھ کو اُٹھائے پھرنے میں کوئی دانش مندی نہیں۔ اگر اس بوجھ کو تاریخ کا حصہ بنا کر قومیں خود کو آزاد کر لیں تو اس کے نتیجے میں ترقی بھی ہو گی، احساس کمتری بھی جاتا رہے گا اور معاشرہ نفسیاتی طور پر خود کو نئی فکر اور سوچ کے لئے تیار رکھے گا۔