مراکش میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اصلاحات کی کوشش
25 دسمبر 2024مراکش کے انصاف اور اسلامی امور کے وزراء نے منگل کو ملک کے عائلی قانون میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا خاکہ پیش کیا۔
اس اقدام کا مقصد موجودہ قانون میں 100 سے زیادہ ترامیم شامل کرنا ہے، جو خواتین کو بچوں کی تحویل اور سرپرستی کے تنازعات میں مزید حقوق فراہم کرے گی اور ساتھ ہی کثیر ازدواجی شادی پر ویٹو بھی کرے گی۔
بیس سالوں میں مراکش کا اپنے عائلی قوانین کا یہ پہلا جائزہ ہے۔
مراکش: کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کا تنازعہ
حقوق نسواں کے علمبردار کارکنان طویل عرصے سے خاندان میں خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق ضوابط پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان مطالبات میں وراثت اور بچوں کی تحویل میں مکمل مساوات کے ساتھ ساتھ بچوں کی کم عمری میں شادی پر مکمل پابندی پر خصوصی طور پر زور دیا جارہا ہے۔
لیکن تازہ ترین اصلاحات ان مطالبات کو پورا کرتے نظر نہیں آرہے ہیں، البتہ اس کا مقصد متنازعہ معاملات میں قانونی ضابطے کو جدید بنانا ہے۔
پاکستان میں اب تک کم عمری کی شادیوں کا رواج کیوں؟
وزیر انصاف عبداللطیف اوہبی نے کہا کہ مثال کے طور پر، یہ اسلامی بنیاد پر وراثت کے اصول کو ختم نہیں کرے گا جو مرد کو عورت کا دوگنا حصہ دیتا ہے، لیکن یہ افراد کو اپنے اثاثوں میں سے کوئی بھی اپنی خواتین کے وارثین کو دینے کی اجازت دے گا۔ اس کے علاوہ، موجودہ قوانین 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو غیر معمولی حالات میں شادی کرنے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن ترمیم شدہ قانون شادی کی عمر کو بڑھا کر 17 سال کر دے گا، جو شادی کے عمومی قانون سے عمر صرف ایک سال کم ہے۔
شاہ نے ترامیم کی ابھی منظوری نہیں دی ہے
سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ عدالتی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ دو سال کی مشاورت کے بعد اس اقدام کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ نئی قانون سازی کو ابھی بھی پارلیمان اور بادشاہ کی منظوری کی ضرورت ہے۔
اوہبی نے نافذ ہونے والی ترامیم کے لیے کوئی ٹائم لائن مقرر نہیں کی۔
مراکش میں 25 سال سے برسرِ اقتدار شاہ محمد ششم کون ہیں؟
شاہ محمد ششم، جو ملک کی اعلیٰ مذہبی اتھارٹی کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں، نے کہا کہ ترمیم شدہ ضابطہ "انصاف، مساوات، یکجہتی اور ہم آہنگی کے اصولوں" کو اسلامی اصولوں اور عالمگیر اقدار کے ساتھ ساتھ مراکش کے خاندانوں کے تحفظ کے لیے بنایا جانا چاہیے۔
نئے قانون پر کسی بھی تنازعہ میں شاہ محمد ششم کے رائے حتمی ہو گی۔
ج ا ⁄ ص ز ( اے ایف پی، روئٹرز)