مسئلہ کشمیر حل کرانا عالمی برادری کی ذمہ داری، نواز شريف
27 ستمبر 2014قريب چھ دہائیاں قبل اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے قرارداد منظور کی تھی۔ تاہم کشمیری عوام آج بھی اس کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ کشمیريوں کے حق خودارادیت کی حمایت، مسئلے کا فریق ہونے کے ناطے پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ميں پاک بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹريوں کے پاس مذاکرات کا ایک اچھا موقع تھا، جسے گنوا دیا گیا۔ ان کے بقول تعمیری اقدامات کی پالیسی کے تحت پر امن خطہ اسلام آباد حکومت کی خواہش ہے تاہم تعلقات برابری، باہمی احترام اور شفافیت کی بنیاد پر رکھنا ہوں گے۔
وزير اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ہے اور دنیا میں امن چاہتا ہے۔ ان کے بقول دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کافی نقصانات اٹھائے ہيں۔ حکومت نے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بڑا فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے اور پاکستانی قوم اس آپريشن ميں اپنی افواج کے ساتھ ہيں۔
وزير اعظم نواز شریف نے مزيد کہا کہ پاکستان پچھلے قريب تیس سال سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کيا کہ وہ افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی کے لیے تعاون بڑھائے۔ شریف نے اپنی تقرير ميں کہا کہ پاکستان ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور جوہری ہتھیاروں کی سلامتی کے لیے اعلیٰ ترین نظام موجود ہے۔
نواز شریف کی اقوام متحدہ کے دفتر آمد پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن بھی بڑی تعداد میں وہاں جمع تھے۔ نيو يارک ميں اس احتجاج ميں خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے اور انہوں نے نواز شریف کے خلاف نعرے بازی کی۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر ’گو نواز گو‘ کے الفاظ لکھے تھے۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی ايک رہنما فوزیہ قصوری نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھاندلی سے وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کے خلاف احتجاج جاری رہے گا۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے کارکنان بھی وزیر اعظم کی حمايت کرنے اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے۔
وزیر اعظم پاکستان نے دورہ امریکہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل بان کی مون سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے خطے میں استحکام اور ترقی کے لیے تبادلہ خیال کیا۔ بان کی مون نے پاکستان میں سیلاب سے تباہ کاریوں اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔ امريکی نائب صدر جو بائيڈن سے اپنی ملاقات میں نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا۔ بائيڈن نے پاکستان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرينہ تعلقات ہیں۔
دريں اثناء وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کو پاکستان میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیر اعظم کی مہنگی ترین رہائش سمیت دیگر اخراجات کے خلاف دھرنے پر بیٹھی پارٹیوں سمیت دیگر کئی حلقوں نے کڑی تنقید کی۔ نیو یارک میں موجود پاکستانی سفارتی عملے کی جانب سے بہتر اقدامات اور بہتر تیاری نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم کے دورہ امریکا میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوتی نظر نہیں آئی۔ نواز شريف کی جانب سے امریکی صدر کے عشائیہ میں شرکت نہ کرنا اور امريکا ميں مقيم پاکستانی کمیونٹی کو ٹائم نہ دینا بھی تنقید کی زد ميں رہا۔
اس کے برعکس بھارتی وزیر اعظم نريندر مودی اپنے اس دورے میں امریکی صدر سے ملاقات کريں گے اور اس کے علاوہ وہ امريکا ميں مقيم بھارتی کمیونٹی کے قریب آنے کے لیے ایک جلسے سے بھی خطاب کريں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کے بعد دیگر مصروفیات سے فارغ ہوکر رات آٹھ بجے کی پرواز سے براستہ لندن پاکستان کے لیے روانہ ہو چکے ہيں۔