’مسلمان اور یہودی کے درمیان شادی اسرائیل کے لیے خطرہ‘
12 اکتوبر 2018اسرائیلی وزیر داخلہ اور دائیں بازو کے قانون ساز ارییا درعی نے اسرائیلی عرب خاتون اور ان کے ایک یہودی ساتھی کو آپس میں شادی کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے دو مختلف مذاہب کے ماننے والے اس جوڑے کی شادی کو نہ صرف یہودیوں بلکہ اسرائیلی ریاست کے لیے بھی ایک خطرہ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی عرب نیوز اینکر لوسی حریش عبرانی زبان پر عبور رکھتی ہیں اور انہوں نے بدھ کے روز ہی عربی بولنے والے یہودی اداکار تاخی حالوی سے شادی کی ہے۔ سینتیس سالہ حریش اسرائیل کے جنوب میں آباد ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں اور وہ اسرائیلی ٹیلی وژن پر عبرانی زبان میں بطور اینکر ملازمت کرنے والی پہلی عرب خاتون تھیں۔ دوسری جانب حالوی نے نیٹ فلیکس کے ایک ڈرامے ’فاؤدا‘ میں ایک خفیہ ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے شہرت حاصل کی تھی۔ ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس جوڑے کا کہنا تھا، ’’ہم ایک امن معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
میڈیا اطلاعات کے مطابق ان دونوں میں گزشتہ چار برسوں سے خفیہ رومانس جاری تھا لیکن انہوں نے کٹر نظریات کے حامل عربوں اور یہودیوں کے خوف سے اسے چھپایا ہوا تھا۔
اسرائیلی وزیر داخلہ کا اس شادی کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن ایک یہودی کے طور پر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس کے خلاف ہوں۔ ہمیں یہودیوں کو محفوظ رکھنا ہوگا۔‘‘
اسرائیلی عرب خاندان: گھر بسانے کی شدید مشکلات
اسرائیلی آرمی ریڈیو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ’’ان کے بچے بڑے ہوں گے، اسکول جائیں گے اور بعد میں شادی کے وقت انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر وہ (حریش) چاہتی ہیں تو یہودیت قبول کرنے کا ایک مکمل عمل ہے۔‘‘
یہودی مذہب میں صرف انہی بچوں کو یہودی سمجھا جاتا ہے، جن کی والدہ یہودی ہوتی ہیں اور انتہائی دائیں بازو کے یہودی نظریات کے مطابق ہی یہودی مذہب اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی سیاسی جماعت لیکوڈ کے ایک قانون ساز نے ایسی شادیوں کو ’یہودی پاکیزگی‘ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی لبرل سیاستدانوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے دائیں بازو کے یہودیوں کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اس شادی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اسرائیل کے مشہور اخبار ہاآرٹس کے ایک کالم میں نہ صرف وزیراعظم کی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جماعت نسل پرستانہ واقعات کی روک تھام میں ناکام ہو رہی ہے۔
ا ا / ش ح (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹزر)