مصری اسرائيلی سرحد پر سکيورٹی کی بدلتی صورتحال
16 اگست 2012اسرائيليوں کو پہلے يہ شبہ ہوا کہ حملہ آوروں کا تعلق فلسطينی تنظيم حماس سے تھا ليکن وہ مصری نکلے۔ مصر کے انقلاب اور حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مصر سے اسرائيل کو جانے والی گيس پائپ لائن پر حملوں ميں بھی اضافہ ہوا ہے۔ شمالی سينا اور غزہ کے فلسطينی علاقے ميں اسمگلنگ بھی بڑھ گئی ہے۔ جولائی ميں امريکی خفيہ اداروں نے علاقے ميں مجرمانہ گروہوں کی سرگرميوں کی اطلاع دی تھی جن کے روابط ممکنہ طور پر دہشت گردوں سے تھے۔
فلسطينی صحافی اور ماہر سياسيات خالد حروب کا کہنا ہے کہ 1979 کے کيمپ ڈيوڈ کے مصری اسرائيلی معاہدے کے تحت مصری فوج اور سکيورٹی فورسز بہت محدود تعداد ميں سينا ميں تعينات رکھی جا سکتی ہيں:’’اس کے بعد سے صرف کئی سو مصری فوجی ايک بہت بڑے علاقے کی نگرانی پر مامور ہيں۔ يہ بالکل ناممکن ہے۔ اس قسم کے واقعات اس سے پہلے بھی ہو سکتے تھے۔‘‘
حروب نے کہا کہ مصر کو فوجی اور سلامتی کے امور ميں اس علاقے ميں زيادہ اختيارات ديے جانے چاہیيں۔ اس سے شمالی سينا ميں بڑھتی ہوئی اسمگلنگ پر بھی قابو پايا جا سکتا ہے۔ مصری حکومت علاقے پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے اس پر توجہ بھی نہيں ديتی۔ پچھلے 30 برسوں ميں سينائی کے شہريوں ميں بہت زيادہ بے چينی پھيلی ہے۔ بے رزوگاری اور غربت عام ہے۔ گذشتہ عشروں کے دوران پورے علاقے ميں عسکريت پسندی کا رجحان بڑھا ہے اور يہی سينا کے بارے ميں بھی کہا جا سکتا ہے۔
حروب نے کہا کہ مصر اور اسرائيل ان عسکريت پسندوں کی دہشت گردی کی وجہ سے ان کے خلاف ہيں ليکن غزہ کے فلسطينی علاقے کی حماس تنظيم انہيں اپنے علاقے ميں بھی سرگرم حريف گروہ سمجھتی ہے جو حماس ہی کی طرح اسلام کا نام ليتا ہے اور فلسطينی مقاصد کی حمايت بھی کرتا ہے۔
حروب نے کہا کہ مصری اسرائيلی سرحد پر سلامتی کی صورتحال تبديل ہو گی۔ مصری فوجيوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت سے مصر ميں جو غم و غصہ پايا جاتا ہے وہ مصری حکومت کو صحرائے سينا میں سلامتی کے پورے نظام کو تبديل کرنے پر آمادہ کرے گا، چاہے يہ اسرائيل کی رضامندی سے ہو يا اُس کے بغير۔
K. Knipp,sas/aa