پنجاب اور سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات
31 اکتوبر 2015پنجاب کے جن بارہ اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے ان میں لاہور، فیصل آباد، گجرات، چکوال، بھکر، ننکانہ صاحب، قصور، پاکپتن، اوکاڑہ، لودھراں، وہاڑی اور بہاولنگر شامل ہیں جبکہ صوبہ سندھ میں سکھر، خیرپور، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، کشمور اور قمبر شہداد کوٹ میں ووٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ ان دو صوبوں کے بیس اضلاع میں ہونے والے انتخابات میں پچپن ہزار سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں جبکہ ووٹروں کی تعداد دو کروڑ چھیالیس لاکھ کے قریب ہے۔
بیس ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں سے چار ہزار چھ سو چار پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیے گئے۔ ان انتخابات کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے۔ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی طرف سے فوج کو بھی سول انتظامیہ کی مدد کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔ اس سب کے باوجود ہفتے کی صبح ساڑھے سات بجے شروع ہونے والی پولنگ کے دوران مختلف علاقوں سے پولنگ کے ناقص انتظامات، بدنظمی اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے پولنگ کے روکے جانے، ہنگامہ آرائی کرنے، بیلٹ پیپر چھیننے اور پولیس کے لاٹھی چارج کرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔
پنجاب میں اسلحہ لہرانے پر پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز میں غلطیوں یا امیدواروں کے نام موجود نہ ہونے کی شکایات بھی ملی ہیں۔ ایسے پولنگ اسٹیشنوں پر الیکشن ملتوی کر کے دوبارہ الیکشن نو نومبر کو کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
گلبرگ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر موجود شاہد نامی ایک شخص نے بتایا کہ ووٹر لسٹوں میں کافی غلطیاں ہیں اور کئی لوگوں کو اپنا نام ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی عمل کے موقع پر کئی علاقوں میں ہونے والی لڑائی جھگڑوں میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جبکہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بھی پچاس سے زائد افراد گرفتار کر لیے گئے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی شکایت بھی کی ہے۔ ضلع وہاڑی کے ڈی پی او صادق علی نے صحافیوں کو بتایا کہ پولنگ اسٹیشن کے قریب فائرنگ کرنے والے ایک شخص کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بہتر رہنے کی توقع ہے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری رہنے کا امکان ہے۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنے نظریات سے بالا تر ہو کر ایسی جماعتوں سے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے، جن سے ان کے نظریات مطابقت نہیں رکھتے۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کے بیٹے نے ایک حلقے میں تحریک انصاف کے پینل میں الیکشن لڑا جبکہ اسی جماعت کے ایک اور رہنما فرید پراچہ کے بیٹے نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔
دونوں صوبوں میں انتخاب میں حصہ لینے والوں میں بڑی تعداد روایتی سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور وزیروں، مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کے رشتہ داروں کی ہے۔ لاہور میں وزیر اعظم کے ماموں زاد بھائی عارف حمید بٹ بیڈن روڈ سے الیکشن لڑا جبکہ معروف وکیل ایس ایم ظفر کے بیٹے نے کینال ویو کے علاقے سے انتخابات میں حصہ لیا۔
سب سے دلچسپ صورتحال فیصل آباد کی ہے، جہاں مسلم لیگ (ن) کے کارکن اپنی پارٹی کے ہی مقابل ان انتخابات میں حصہ لیا۔ اس شہر میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور نواز شریف کے قریبی عزیز چوہدری شیر علی نے مسلم لیگ نون کی ہی رہنما اور پنجاب کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پر متعدد افراد کو قتل کرنے جیسے الزامات لگائے ہیں۔
پاکستان کے الیکشن کمیشن کی طرف سے ذرائع ابلاغ پر غیر سرکاری نتائج کے اعلان پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن عدالت نے غیر مشروط طور پر غیر حتمی نتائج کے اعلان کی میڈیا کو اجازت دے دی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری محمد سرور نے الزام لگایا ہے کہ ہر یونین کونسل پر پی ٹی آئی کو دی جانے والی لسٹوں میں ایک ہزار کے قریب ووٹ موجود نہیں ہے۔ پولنگ والے علاقوں میں سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ تاجروں نے بھی اپنی مارکیٹیں اور تجارتی مراکز بند رکھے۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں ٹرن آوٹ کے بہتر ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’ان انتخابات میں امیدوار اپنے اپنے علاقے کے موجودہ یا سابق اراکین اسمبلی کی سرپرستی میں حصہ لے رہے ہیں۔ اتنی مشکلات کے بعد وجود میں آنے والی مقامی حکومتوں کے پاس مالی اور انتظامی اختیارات زیادہ نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا صوبائی حکومتیں، ان انتخابات کے بعد صوبائی فنانس کمیشن بنا کر وسائل کی پسماندہ اضلاع کو فراہمی یقینی بناتی ہیں یا نہیں۔‘‘