مقتولہ لڑکی نے قرآن کی بے حرمتی نہیں کی تھی، افغان تفتیش کار
22 مارچ 2015جرائم کی تفتیش کرنے والے افغانستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار جنرل محمد ظاہر نے اتوار کے روز صحافیوں کو بتایا کہ 27 سالہ مقتولہ لڑکی فرخندہ پر قرآن کو نذر آتش کرنے کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا کہ مشتعل ہجوم اس لڑکی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے، جب کہ پولیس اہلکار کھڑے مداخلت کرنے کے بجائے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اس لڑکی کو بعد میں اُس ہجوم نے دن دہاڑے جلا ڈالا تھا۔ یہ واقعہ جمعرات کے روز کابل کے مرکزی علاقے میں پیش آیا تھا۔
جنرل محمد ظاہر نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’گزشتہ شب میں نے تمام دستاویزات کا جائزہ لیا اور ایک مرتبہ پھر تمام شواہد دیکھے مگر مجھے کہیں کوئی ایسی شہادت یا ثبوت نہیں ملا، جس سے یہ ظاہر ہو کہ فرخندہ نے قرآن کا نسخہ نذر آتش کیا تھا۔ فرخندہ مکمل طور پر معصوم تھی۔‘
محمد ظاہر نے اس واقعے میں ملوث آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت 13 زیر حراست افراد سخت سزا دینے کا وعدہ کیا۔
اس واقعے کی مذمت صدر اشرف غنی اور دیگر افغان حکام نے کی تھی، تاہم ملک کے متعدد مذہبی حلقوں کی جانب سے اس واقعے پر خوشی کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ ان مذہبی رہنماؤں کا موقف تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد نے ’اسلام کے تحفظ‘ کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
واضح رہے کہ فرخندہ اسلامیات کی استانی تھی۔ اس کے بھائی نجیب اللہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ وہ کسی طرح کی ذہنی بیماری کا شکار نہیں تھی اور اس کے والد کی جانب سے فرخندہ کے خراب ذہنی توازن کی بات اس لیے کی گئی، کیوں کہ پولیس نے انہیں سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور شہر چھوڑ کر اپنی حفاظت آپ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ’’میرے والد خوف زدہ تھے، انہوں نے لوگوں کو پرسکون کرنے کے لیے یہ جھوٹا بیان دیا۔‘
اتوار کے روز سینکڑوں افراد نے اس مقتولہ لڑکی کی آخری رسومات میں شرکت کی اور ’ہمیں انصاف چاہیے‘ کے نعرے لگائے۔ اس لڑکی کا جنازہ خواتین نے اٹھا رکھا تھا۔