ملا اختر منصور کی ہلاکت ایک معمہ
4 دسمبر 2015اسلامی باغی گروپ طالبان کی طرف سے مسلسل اس امر کی تردید کی جا رہی ہے کہ ملا اخترسینیئر طالبان لیڈروں کے ساتھ ہونے والی مسلح جھڑپوں میں زخمی ہوا تھا۔ طالبان کے متعدد ذرائع یہ کہہ چُکے ہیں کہ ملا اختر منصور، جن کی لیڈرشپ کو طالبان ہی کے ایک حریف دھڑے نے مسترد کر دیا ہے، پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نزدیک ایک اور طالبان لیڈر کے گھر پر مسلح جھڑپ میں شدید زخمی ہوا تھا اور غالباً اُس کی موت واقع ہو چُکی ہے۔
دریں اثناء افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ منصور مغربی پاکستان کے شہر کوئٹہ کے نزدیک ہونے والی مسلح جھڑپ میں زخمی ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے اس کے کوئی براہ راست شواہد نہیں ملے ہیں۔
طالبان کے مرکزی ترجمان نے ملا اختر منصور کے بارے میں گردش کرنے والی خبروں کو افغان خفیہ سروسز کا پروپگینڈا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد طالبان کی صفوں کو غیر متحد کرنا اور ان میں پھوٹ ڈالنا یا ان میں تقسیم پیدا کرنا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ملا اختر منصور زندہ اور خیریت سے ہے۔
ملا اختر منصور کے بارے میں خبروں کو مبہم اور معمہ اس لیے بھی سمجھا جا رہا ہے کہ طالبان کے بانی ملا محمد عُمر کی موت کے بعد بھی ایسی ہی پرسرار صورتحال سامنے آئی تھی۔ ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق اُس کے مرنے کے دو سال بعد گزشتہ جولائی میں ہوئی تھی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مُجاہد کے مطابق ملا اختر منصور کی طرف سے ذاتی طور پراُس کا اپنا کوئی بیان اب تک سامنے نہیں آیا ہے اور سکیورٹی اقدامات کو مزید سخت اور جامع بنانے کے عمل سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ منصور سے رابطہ قائم کرنے میں کُچھ وقت لگ رہا ہے۔
ذبیح اللہ مُجاہد کے بقول،’’ ہم سب خود اپنے لوگوں کے ذریعے اُس کی تلاش میں ہیں اور ملا منصور کی آواز ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اُسے میڈیا کو فراہم کریں اور اس طرح اُس کے بارے میں افغانستان کی کٹ پُتلی حکومت کی طرف سے پھیلائی جانے والی افواہوں کا سلسلہ ختم ہو۔
غیر یقینی کی یہ صورتحال پاکستان کی طرف سے امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ امن مذاکرات جولائی کے ماہ میں ملا عمر کی موت کی تصدیق کے بعد منقطع ہو گئے تھے۔
افغان حکام اس وقت طالبان میں دراڑ پڑنے اور اس کے مزید دھڑے بننے کی ہر چھوٹی بڑی علامت کے بارے میں نہایت محتاط ہیں۔ اس بارے میں ایک حکومتی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے کہا،’’ طالبان میں پیدا ہونے والے اختلافات اور اس مہم میں پڑنے والی دراڑیں حکام کو سہولت میسر کریں گی ان عناصر کو امن کا قائل کرنے یا انہیں الگ تھلگ کرنے کےعمل میں‘‘۔