ملا برادر کہاں ہے، جاننا چاہتے ہیں، افغان ترجمان
27 اکتوبر 2013طالبان میں ملا عمر کے بعد ملا برادر کو تنظیم کے نائب کا درجہ حاصل ہے۔ بیس ستمبر کو پاکستانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ برادر کو رہا کر دیا گیا اور اسے کسی مخصوص جگہ نظر بند رکھا گیا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ملا برادر کو جس جگہ رکھا گیا ہے وہاں سکیورٹی کا سخت ترین انتظام ہے۔
افغان حکومت کافی عرصے سے پاکستان سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ملا برادر کو اس کے حوالے کیا جائے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان حکام کا خیال ہے کہ ملا عمر کے بعد اگر کسی طالبان رہنما کا اتنا اثر و رسوخ ہے کہ وہ دیگر طالبان کو قیام امن کے لیے راضی کر سکے تو وہ ملا برادر ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے نيوز ايجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ملا برادر کو سخت نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ ہم پاکستان سے پوچھیں گے کہ برادر کو کہاں رکھا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان افغانستان کی امن کونسل اور ملا برادر کے درمیان براہ راست مذاکرات کس طرح کروا سکتا ہے۔‘‘
صدر کرزئی نے طالبان سے مذاکرات کے لیے سن دو ہزار دس میں افغان امن کونسل قائم کی تھی۔
فیضی کا کہنا ہے کہ صدر کرزئی اگلے ہفتے لندن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں ہونے والے افغان مذاکرات میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملا برادر کے بارے میں بات چیت کریں گے۔
فیضی کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان امن کونسل برادر کے اہل خانہ کے ساتھ تو رابطے میں ہے مگر ملا برادر کے ساتھ نہیں۔ ’’برادر کے رشتے دار تو برادر سے رابطہ کر سکتے ہیں لیکن ہم نہیں۔‘‘
اگلے برس افغانستان سے بین الاقوامی افواج کا انخلاء مکمل ہو جائے گا۔ افغان حکومت کے علاوہ امریکا کی بھی کوشش ہے کہ وہ طالبان کو کسی طرح مذاکرات کی میز پر لے آئے تاکہ ملک میں جاری خانہ جنگی کا اختتام ہو۔ مبصرین کے مطابق اس حوالے سے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ حال ہی میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں بھی افغانستان میں جاری مصالحتی کوششوں کو خاصی اہمیت حاصل رہی۔