موریا، دنیا کا ’بدترین مہاجر کیمپ‘
موریا بھی انہی رجسٹریشن مراکز میں سے ایک ہے۔ لمبی قطاروں، ابتر حالات اور بنیادی اشیا کی عدم موجودگی کے باعث موریا کو دنیا کا بدترین مہاجر کیمپ قرار جاتا ہے۔
حقیقی مہاجر کون ہے؟
لیسبوس پہنچتے ہی مہاجرین کو قومیت کے حوالے سے الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شامی باشندوں کو ’تارا کیپی کیمپ‘ منتقل کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر مہاجرین شلیٹر ہاؤسز میں رکھے جاتے ہیں۔ دیگر کو موریا کیمپ رکھا جاتا ہے۔ یہ سابقہ حراستی مرکز یونان کا پہلا ہاٹ سپاٹ رجسڑیشن کیمپ ہے، جہاں اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد کیمپوں یا درختوں کے نیچے ہی سوتے ہیں۔
بہت زیادہ رش، اہم اشیا کی قلت
اس مقام پر گنجائش سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ اس لیے یہاں تنازعات بھی جنم لیتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارک حاصل کرنے کی قطاروں کو توڑنے پر لڑائی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کیمپ میں چار سو دس افراد کی گنجائش ہے جبکہ حقیقت میں وہاں دو تا چار ہزار افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس کیمپ میں بنیادی اشیا کی قلت بھی ہے۔
خوراک کی کمی
ہالینڈ کے ایک امدادی ادارے کی بانی رومنا برونگرز کے بقول ان کا ادارہ اس کیمپ میں روزانہ ڈیڑھ ہزار افراد کے لیے کھانا پکاتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ روز ہی کئی افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس خاتون امدادی کارکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر ہیں۔
کوڑے کرکٹ میں زندگی
رومنا برونگرز کا کہنا ہے کہ چھتیس رضاکاروں پر مشتمل ان کا گروہ اس کیمپ میں کوڑا کرکٹ کی صفائی اور بہتر نکاسی آب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں لوگ کوڑے کرکٹ میں ہی سو جاتے ہیں، ’’اس مقام کو صاف ستھرا رکھنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حفظان صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تحریک کا نہ ہونا
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس ابتر صورتحال کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکار اس کیمپ کے انتظام کی ذمہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ کرنے کے تحریک ہی نہیں اور کبھی کبھار تو وہ کام پر آتے ہی نہیں۔ مورلٹ بقول یوں یہاں پہلے سے موجود لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی جبکہ مزید لوگ پہنچ جاتے ہیں۔
پاکستان سے ترکی تک ننگے پاؤں سفر
فیص اللہ (تصویر میں پنک شرٹ میں ملبوس) کے بقول انہوں نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں ہی طے کیا۔ فیض اللہ کے دوست اسرار احمد (انتہائی دائیں) کے مطابق وہ اس کیمپ میں یونہی سوتے ہیں، بغیر کسی کمبل کے، ’’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہماری طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘
تعاون نہ ہونے کے برابر
امدادی ادارے ’ایکشن ایڈ‘ سے وابستہ قنسطنطینہ سِٹریکوا کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے قبل اس کیمپ میں خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤسز کا انتظام ہو جائے لیکن پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ کے باہر ایک کنٹینر پڑا ہے، جو رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس اسے اس کمیپ میں لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
فیصلہ کون کرے گا؟
بیس سالہ افغان شہری ارشد رحیمی کہتا ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں اس کے باپ اور بہن کے کے قتل کے بعد اس کی ماں نے اسے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’مجھے طالبان سے خطرہ لاحق ہے لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں اقتصادی مقاصد کے لیے نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اس الجھن میں سوال کرتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ وہ مہاجر ہے یا نہیں؟
گوانتانامو بے جیسی صورتحال
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس مقام کو ایک حراستی کیمپ کے مترادف قرار دیتے ہیں، ’’باڑوں اور خار دار تاروں کے ساتھ یہ گوانتانامو کے حراستی کیمپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف موسم سرما کی وجہ سے ہی لوگ ہجرت کے عمل کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ سردیوں میں سمندر قدرے پرسکون رہتے ہیں۔
’اللہ کے رحم و کرم پر اکیلا‘
افغان شہری یزمان یوسفی کے بقول ، ’’جب میں کشتی پر سوار ہو کر یہاں آ رہا تھا تو سمندر بیچ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ کے رحم وکرم پر ہوں۔‘‘ ایران میں بطور پناہ گزین زندگی بسر کر چکنے والے یوسفی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی خود کو خدا کے ساتھ تنہا ہی محسوس کرتا ہے، ’’جیسے میں نے اس کشتی میں محسوس کیا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں بچ جاؤں گا۔ اس کیمپ میں بھی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی میری یہی سوچ ہے۔‘‘