موصل میں داعش کے خلاف جنگ ڈراؤنا خواب بنتی ہوئی، عراقی کرنل
10 نومبر 2016عراقی دارالحکومت بغداد سے نیوز ایجنسی روئٹرز نے جمعرات دس نومبر کو اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے عراقی فوج کا جو ٹینک بردار ڈویژن موصل شہر کے ایک بیرونی حصے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، اس کے ایک سینئر افسر اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مہارت رکھنے والے ملکی فوج کے نویں آرمرڈ ڈویژن کے ایک کرنل نے بتایا کہ موصل داعش کے گڑھ بڑے عراقی شہروں میں سے بھی اہم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس شہر کو داعش کے جہادیوں سے پاک کرنے کی جنگ اب ایک ’ڈرا دینے والا خواب‘ بنتی جا رہی ہے۔
اس عراقی کرنل کے مطابق موصل میں ملکی فوج کا سامنا ایک ایسے دشمن سے ہے، جس کے جنگجو تجربہ کار ہیں، وہ متحرک بھی ہیں، اپنی بربریت کے لیے مشہور ہیں اور انہوں نے شہر کے ایسے کئی علاقے اپنے قبضے میں لے رکھے ہیں، جہاں وہ شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں۔
نویں آرمرڈ ڈویژن کے اس کرنل نے روئٹرز کو بتایا کہ عراقی فوج کے خصوصی دستے گزشتہ ہفتے موصل شہر کے نواح میں یا اس کے بیرونی حصے میں مجموعی طور پر 60 کے قریب چھوٹے بڑے علاقوں میں سے چھ کو اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
یہ پیش قدمی 17 اکتوبر سے موصل کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے جاری اس عسکری مہم کی اولین جزوی کامیابی تھی، جس میں عراقی فورسز کو حکومت نواز ملیشیا گروپوں کی زمینی اور امریکی قیادت میں اتحادی ملکوں کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عراقی فوج کے لیے اپنی اس کامیابی کا عسکری حوالے سے دفاع بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ داعش کے جہادی یونٹ عراقی فوج پر چھپ کر حملے کرتے ہیں، خود کش حملوں کی شرح بھی زیادہ ہو چکی ہے اور اس کے علاوہ اکثر رات کے وقت بھی داعش کے جنگجو عراقی فوج پر حملے کرتے ہیں، جس کی وجہ سے فوجیوں کو آرام کا وقت نہیں ملتا۔
روئٹرز کے مطابق جنوب مشرقی موصل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسند اپنے اس شب خون کے لیے زیادہ تر شہر کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کا وہ کئی کلومیٹر طویل نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں، جسے ناکام بنانا فوج کے لیے فی الحال انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
اس عراقی فوجی کرنل نے، جو میڈیا کے ساتھ بات چیت کا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، روئٹرز کو بتایا، ’’ہمارے دستے ایک ایسا بکتر بند بریگیڈ ہیں، جسے اپنے ٹینک استعمال کیے بغیر ہی دشمن سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے فوجیوں کو شہری علاقوں میں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور اسی لیے انہیں مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔‘‘
روئٹرز نے اس موضوع پر اپنے مراسلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کر کے داعش نے دو برس قبل اپنی جس نام نہاد ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا، اس کے خاتمے کے لیے موصل پر عراقی دستوں کا آئندہ قبضہ فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہو گا۔ لیکن عسکری حوالے سے یہ حقیقت بھی پریشانی کا باعث ہے کہ موصل کو آزاد کرانا اکیلے عراقی فوج کے خصوصی دستوں کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
عراقی فوج کے لیے ایک بہت مشکل کام موصل میں عام شہریوں اور داعش کے جہادیوں کے مابین فرق کرنا بھی ہے، جو بظاہر ناممکن ہے۔ ’’ہمارے فوجی حملہ آوروں کو عام شہری سمجھ کر پہچان ہی نہیں پاتے۔ اکثر بہت دیر ہو جاتی ہے۔ تب تک کوئی نہ کوئی خود کش حملہ ہو چکا ہوتا ہے یا فوجیوں پر کوئی دستی بم پھینکا جا چکا ہوتا ہے۔ یہ بات حکومتی دستوں کے لیے ایک اعصاب شکن ڈراؤنا خواب بنتی جا رہی ہے۔‘‘