میانمار میں فرقہ واریت: ’تیس ہزار افراد بے گھر ہو گئے‘
15 جون 2012راکھین کے لیے سلامتی اور سرحدی امور کے وزیر Htein Lin کا کہنا ہے کہ گزشتہ جمعے سے وہاں 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے سولہ مسلمان اور تیرہ بدھ مت کے پیرو کار تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ درجنوں افراد زخمی ہیں جبکہ فسادات کے دوران تقریباﹰ دو ہزار چھ سو گھر نذر آتش کیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہلاکتوں کی اس تعداد میں تین جون کو مارے جانے والے دس مسلمان شامل نہیں، جنہیں بدھوں کے ایک مشتعل ہجوم نے بظاہر ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے قتل پر انتقاماﹰ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
راکھین کے لیے میانمار کے اس وزیر کا کہنا ہے کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں دونوں جانب کے تقریباﹰ اکتیس ہزار نو ہزار افراد کو سینتیس کیمپوں میں پناہ دی گئی ہے۔ انہوں نے یہ باتیں جمعرات کو ریاستی دارالحکومت Sittwe میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہیں۔
اس علاقے میں راکھین بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں نے حملوں کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ حالیہ دِنوں میں مقامی افراد سڑکوں پر چاقو، تلواریں اور ڈنڈے لہراتے دیکھے گئے ہیں۔
قانون کی پاسداری
میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی اس وقت یورپ کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں راکھین کی پُر تشدد کارروائیوں کے حوالے سے ’قانون کی پاسداری‘ پر زور دیا۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ قانون کی پاسداری کے بغیر ایسی فرقہ واریت جاری ہی رہے گی۔
میانمار میں روہنگیا کمیونٹی کے رہنماؤں نے سوچی پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے ’ابتر حالات‘ پر توجہ دیں۔ بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے ٹیکناف کے ایک کیمپ میں روہنگیا مہاجرین کے رہنما محمد اسلام نے بدھ کو اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس حوالے سے اقوام متحدہ، دیگر ملکوں، میانمار کی حکومت اور بالخصوص آنگ سان سوچی سے اپیل کرتے ہیں۔
ان حالات میں بنگلہ دیش نے میانمار میں تشدد کے باعث گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے عالمی اپیلوں کے باوجود اپنی سرحد کھولنے سے انکار کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپو مونی کا کہنا ہے کہ راکھین سے دو دہائیاں قبل آنے والے دو لاکھ روہنگیا مسلمان پہلے ہی بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ng/ai (AFP, dpa)