نئی زندگی کی آرزو میں موت کا خطرہ
25 اکتوبر 2013کئی عشروں سے جنگ و جارحیت کے شکار افغان عوام میں بہتر زندگی کی تلاش میں ملک ترک کر کے غیر ملکوں کی طرف رُخ کرنے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس کے لیے ان باشندوں کو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو بھاری معاوضے کے عوض ملک سے فرار ہونے کے خواہشمند افغان باشندوں کو جعلی کاغذات اور سفری دستاویزات کے ذریعے غیر مممالک میں پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کئی کیسز میں ملک چھوڑ کر نکلنے والے افغان باشندوں کو کسی غیر ملک میں پناہ کی بجائے موت کی آغوش میں جانا پڑتا ہے۔
ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں ہزارہ نسلی گروپ سے تعلق رکھنے والا ایک با ریش افغان باشندہ اپنی جوتے مرمت کرنے کی دکان میں بیٹھا اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے، "میرے بیٹے نے میری ایک نہ سُنی، اُس نے قرض لے کر اپنی موت کی قیمت ادا کی"۔ اس شخص کا بیٹا آسٹریلیا پہنچنا چاہتا تھا۔ یہ معمر شخص مزید کہتا ہے، "میں اُسے بارہا کہتا رہا کہ وہ نہ جائے، اسمگلرز پر بھروسہ نہ کرے لیکن وہ چلا گیا اور آخر کار موت کے مُنہ میں جاکر غرق دریا ہو گیا"۔
ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں تاہم ان کے باوجود اکثر افغان باشندے بیرونی مداخلت اور اندرونی شورش سے تنگ آ کر ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ ان میں یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ انتہا پسند یا جنگجو سردار پھر سے اقتدار میں آ جائیں گے۔
افغانستان کی پناہ گزینوں کے امور کی وزارت کی طرف سے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف شروع کی جانے والی مہم میں ایسی سچی کہانیوں کو منظر عام پر لاتے ہوئے اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ اور پناہ کی تلاش میں دور دراز ممالک کا خطرناک سفر کرنے والوں کا انجام یا تو موت ہوتا ہے یا انہیں غیر قانونی طور پر غیر ملک پہنچتے ہی متعلقہ انتظامیہ ملک بدر کر دیتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 36 ہزار چھ سو افغان باشندوں نے صنعتی ممالک میں پناہ کی درخواستیں درج کروائیں جبکہ اُس سے پہلے سال یعنی 2011ء میں یہ تعداد 36 ہزار دو سو تھی۔ افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بارہ سال بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستیں وصول کرنے والے ممالک میں اب بھی سب سے زیادہ تعداد پناہ کے متلاشی افغان درخواست دہندگان کی ہے۔
افغان باشندے سب سے زیادہ آسٹریلیا، سویڈن، جرمنی اور ناروے میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اگر یہ افراد بری یا بحری کسی بھی راستے اسمگلرز کی مدد سے متعلقہ ممالک کی سرحدوں میں داخل ہو بھی جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر انہیں سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آسٹریلیا میں ستمبر میں نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اس ملک کی بحریہ نے پناہ کے متلاشی افراد سے لدی کشتیوں کو فوری طور سے مسافروں کے آبائی وطن بھیجنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ خاص طور سے انڈونیشیا سے آنے والی کشتیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ اُدھر کابل میں قائم آسٹریلوی سفارتخانے کی طرف سے سخت انتباہی پیغامات جاری کیے جا رہے ہیں، جن میں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ آسٹریلیا میں تارکین وطن یا پناہ گزینوں کا ہرگز خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔