نو مئی اور فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ آئینی بینچ کی مشروط ہاں
13 دسمبر 2024پاکستانی وکلاء کے مابین پاکستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی قانونی حیثیت پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کچھ اسے ''ظالمانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی طرف سے ''قانون کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی‘‘ سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ وکلاء کی رائے میں آرمی ایکٹ ایسے مقدمات میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی گنجائش فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہوں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے لیکن حکومت کے پاس پھر بھی یہ اختیار ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ان مظاہرین کو معاف کر دے، جن پر نو مئی کے مظاہروں کے دوران فوجی تنصیبات پر حملے کے الزامات ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ عدالت کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ وہ جرم کی نوعیت کا تعین کرے اور عام مظاہرین کو فوجی تنصیبات پر حملہ آور کے طور پر نہ دیکھا جائے۔
معروف وکیل حامد خان کا کہنا ہے، ''عدالت کا فیصلہ افسوس ناک ہے۔ انہوں نے فوجی عدالتوں کے لیے عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ عدالت کے رواں سال جنوری کے پہلے فیصلے کو پلٹ دینا، جس میں انہوں نے فوجی عدالتوں کو شہریوں پر مقدمہ چلانے کا کوئی حق دینے سے انکار کیا تھا، افسوس ناک ہے۔ یقینی طور پر اس عدالت نے ایک اچھی مثال قائم نہیں کی۔‘‘
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو یہ مشروط اجازت دے دی ہے کہ وہ ان 85 شہریوں کے خلاف فیصلے سنا سکتی ہیں، جو گزشتہ سال نو مئی کے فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں اب بھی زیر حراست ہیں۔
سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی، جب سات رکنی بینچ نے فوجی تنصیبات پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث 100سے زائد شہریوں کے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع کی ہے۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا: ''جن ملزمان کو ان کی سزا میں نرمی دی جا سکتی ہے، انہیں دی جائے اور رہا کیا جائے۔‘‘
آئینی ماہرین کے مطابق عدالت کا فوج کو ملزمان کے ساتھ نرمی برتنے کا مشورہ دینے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا، جب کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں پر مقدمات چلانے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فوج کے بھی حق میں نہیں ہے گو کہ وقتی طور پر شاید یہ ایک جیت نظر آتی ہو۔
انسانی حقوق کی معروف وکیل ایمان مزاری نے اس فیصلے کو بنیادی طور پر غلط قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ''نو مئی کے کیس میں فوجی عدالتوں کے ذریعے پاکستانی شہریوں پر مقدمات چلانے کی کوئی معقول یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ظالمانہ ہے۔ یہ فوجی ادارے کے لیے بھی کوئی فائدہ مند کام نہیں کر رہا اور اس تاثر کو مضبوط کرے گا کہ فوج اپنے لوگوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔‘‘
ایک دن پہلے سپریم کورٹ نے پاکستانی فوج کی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جمعرات کو سماعت کے دوران ججز نے فوجی وکیل سے سخت سوالات کیے، جیسے کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ایک عام شہری، جو مسلح افواج کا حصہ نہیں ہے، اس پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں پر مقدمہ چلانے کی قانونی حیثیت پر خدشات کا اظہار بھی کیا۔
تاہم حامد خان کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم طویل عرصے سے اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور عدالت نے قانون کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ ان لوگوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا، جو کہ سیاسی مظاہرین تھے اور انہیں فوجی تنصیبات پر کسی اور حملہ آور کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ جرم کی نوعیت کا تعین کرے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے۔‘‘
تاہم کچھ قانونی ماہرین کا مختلف موقف ہے اور وہ قانون کی مختلف تشریح کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمہ چلانے کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کسی شہری کو معاف کرنے کا آخری اختیار حکومت کے پاس ہے۔
معروف وکیل شاہ خاور نے کہا، ''آرمی ایکٹ شہریوں پر مقدمہ چلانے کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ سپریم کورٹ آرمی ایکٹ کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی تھی۔ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی معاف کر دے اور اس مقصد کے لیے وزیر اعظم صدر کو معافی کی درخواست لکھتے ہیں، اور صدر معافی دے سکتے ہیں۔ قانون بہرحال قانون ہے۔‘‘