1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’نواز شریف خارجہ اور دفاع کا قلمدان اپنے پاس رکھیں گے‘‘

29 مئی 2013

ذرائع کے مطابق پاکستان کے متوقع وزیر اعظم نواز شریف طاقتور پاکستانی فوج اور بیرونی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی خاطر وزارت دفاع اور خارجہ کے قلمدان اپنے پاس رکھیں گے۔

https://p.dw.com/p/18fvR
تصویر: Reuters

پاکستان میں رواں ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملا کر مسلم لیگ ن اپنے 185 ارکان کے ساتھ اسلام آباد کی 342 نشتوں والی پارلیمان میں ایک واضح اکثریت کی حامل جماعت بن گئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ن لیگ کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کا وزارت دفاع اور خارجہ کی حساس وزارتیں اپنے پاس رکھنے کا ارادہ ہے۔

نواز شریف، جن کی سابقہ حکومت کو 1999ء میں ایک فوجی بغاوت کے بعد برطرف کر دیا گیا تھا، ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں پاکستانی سیاست کے منظر نامی پر ابھارنے والے ایک سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق ہی تھے۔ وہ خارجہ امور کے لیے متوقع طور پر طارق فاطمی کو اپنا مشیر مقرر کریں گے۔ فاطمی ریٹائرڈ سفارتکار ہیں اور امریکا و یورپی یونین میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔

مبصرین کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ 1947ء سے اب تک پاکستان پر نصف عرصے سے زائد عرصے تک حکمرانی کرنے والی فوج کے جرنیل اب بھی خارجہ پالیسی میں بڑی حد تک اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق وزیر خارجہ مقرر نہ کرنے کا متوقع فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نواز شریف فوج کے ساتھ سویلین حکومت کے تعلق پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔

Parkistan Politik Musharraf
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ان دنوں اسلام آباد میں اپنے گھر پر نظر بند ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے روئٹرز کو بتایا، ’’خارجہ پالیسی کے حوالے سے نئی سویلین حکومت اور فوج کا لائحہ عمل ایک ہونا چاہیے، بالخصوص افغانستان، بھارت اور امریکا کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں۔‘‘واشنگٹن حکومت چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے اہم اتحادی ملک کی حیثیت سے پاکستان 2014ء کے بعد افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلاء کے پس منظر میں وہاں استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ امریکا اور افغانستان کا الزام رہا ہے کہ پاکستان کے طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط ہیں اور وہ انہیں افغانستان میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت اس الزام کو رد کرتی ہے۔ ن لیگ کے اس عہدیدار کے بقول، ’’ افغانستان میں طالبان قیادت کے ساتھ امن عمل اور بھارت کے حوالے سے نئی پالیسی وضع کرنے سے پہلے تک وزیر اعظم کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔‘‘

اپنی انتخابی مہم کے آخری ایام میں نواز شریف انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق امریکی پالیسی پر کھل کر تنقید کی تھی۔ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہے اور نظریاتی طور پر قدرے قدامت پسند تصور کیے جاتے ہیں۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق ان کے قائد نے بالخصوص حکومت کے ابتدائی ایام میں کسی بھی قسم کا خطرہ مول لینے سے گریز کریں گے اور حساس نوعیت کے بیشتر معاملات براہ راست انداز میں خود دیکھیں گے۔

(sks/ ai (Reuters