وارسا کانفرنس: اسرائیل سمیت کئی عرب ممالک شریک
14 فروری 2019پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں بدھ 13 فروری کو شروع ہونے والی اس دوزہ خصوصی کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور نائب امریکی صدر مائیک پینس کی شرکت کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔ شرکا میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی شامل ہیں جبکہ بعض عرب ممالک سمیت تقریباً ساٹھ اقوام کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ کانفرنس میں خاص طور پر شرکاء کی توجہ مشرق وسطیٰ اور ایران پر مرکوز کیے جانے کا یقینی امکان ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ وارسا کانفرنس میں مشرقِ وسطیٰ کو درپیش خطرات اور چیلنجز کا احاطہ کیا جائے گا۔ پومپیو کے مطابق اس سارے خطے میں دیرپا امن کے لیے بظاہر صورت حال مشکل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ اس خطے میں امن و استحکام کا حصول اُسی صورت میں ممکن ہے جب ایران کو مناسب انداز میں مختلف ممالک کے معاملات میں مداخلت سے روک دیا جائے۔ پومپیو نے ان خیالات کا اظہار اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں اس کانفرنس کو اپنے ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک انقلاب قرار دیا ہے۔ نیتن یاہو نے اس کانفرنس میں اعلیٰ سطحی عرب وفود کی شرکت کا پرزور انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے کہا کہ یہ علاقائی ترجیحات میں تبدیلی کا واضح مظہر ہے۔
اس بین الاقوامی کانفرنس میں یورپ سے صرف برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ شریک ہیں۔ جیریمی ہنٹ نے کانفرنس سے قبل امریکا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے ساتھ مشترکہ طور پر ملاقات کی ہے۔ اس مشترکہ میٹنگ میں یمن کی داخلی صورت حال پر بھی خاص طور پر گفتگو کی گئی۔
وارسا کے اجتماع میں جرمنی اور فرانس کی نمائندگی وزیر کی سطح پر نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیدریکا موگرینی بھی وارسا کانفرنس میں شریک نہیں ہیں۔ یورپی سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں نے اہم یورپی اقوام کی عدم شرکت کو غیر معمولی قرار دیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس کانفرنس کو استہزائیہ انداز میں ’وارسا سرکس‘ کا نام دیا ہے۔ وارسا کانفرنس کا اہتمام اُسی روز کیا گیا ہے جب روسی بندرگاہی شہر سوچی میں ایران، ترکی اور روس کے صدور شام کی تازہ ترین صورت حال پر غور و خوص کریں گے۔
ع ح / ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز)