وزیر اعظم گیلانی کا سپریم کورٹ کو تحریری جواب
19 مارچ 2012توہین عدالت کے مقدمے میں پیر کے روز داخل کرائے گئے تحریری جواب میں وزیراعظم نے اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بینچ نے استغاثہ کی کارروائی شروع کی اور مقدمے کی سماعت بھی کر رہا ہے جو آئینی طور پر درست نہیں۔
چوبیس صفحات پر مشتمل اس تحریری جواب میں وزیراعظم نے اس سات رکنی بینچ کے اس فیصلے کو بھی یکطرفہ قرار دیا جس میں وزیر اعظم کو دوبارہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا مؤقف ہے کہ 8 مارچ کو ان کی عدم موجودگی میں ججوں نے یہ یکطرفہ فیصلہ دیا جسے واپس لیا جائے۔
وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد شفاف ٹرائل ہر شہری کا حق ہے۔ وزیر اعظم کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مؤقف کا بھرپور دفاع کر سکیں۔ انہوں نے کہا، ’مودبانہ درخواست کی گئی ہے کہ جج صاحبان جنہوں نے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا، وہ اس عدالت میں اور معاملے کی شنوائی کے لیے نہ بیٹھیں۔ پھر یہ ہے کہ توہین عدالت کا جو معاملہ ابھی زیر غور تھا، عدالت کے سامنے، اور ابھی یہ فیصلہ ہونا تھا کہ کیا صدر کے خلاف خط لکھا جا سکتا ہے، اس سے قبل ہی عدالت نے 8 مارچ کو ایک اور حتمی فیصلہ سنا دیا کہ وزیر اعظم سوئس حکام کو خط لکھیں۔‘
وزیر اعظم نے اپنے تحریری جواب میں عدالت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت میں 10 جنوری کو توہین عدالت کی ابتدائی کارروائی میں جو 6 راستے رکھے تھے ان میں عوامی رائے کا راستہ بھی موجود تھا۔
قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم گیلانی نے دوسرے لفظوں میں سوئس حکام کو خط لکھنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے اور ان کا یہ مؤقف انتہائی اہم مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر بابر ستار نے کہا، ’بہرحال سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرنی ہے اور یہ بتانا ہے کہ اسے کس طرح نافذ کیا جائے۔ وزیر اعظم اپنے طور پر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ آئین کی تشریح غالباً صحیح نہیں ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے سپریم کورٹ کا کام پارلیمنٹ کرنا شروع کر دے تو یہ ہمارا آئین کا جو ڈھانچہ ہے، اسے ہلا دینے والی بات ہے اور وزیر اعظم ایک طرف سے بہت خوفناک نظیر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پہلے بھی متعدد موقعوں پر واضح کر چکے ہیں کہ وہ صدر کے خلاف سوئس حکام کو خط نہیں لکھیں گے خواہ اس کے لیے انہیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں اگلی کارروائی اب 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہوگی۔
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ
دریں اثناء پیر ہی کے دن پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ انہوں نے پیر کے روز وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات کی۔ سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے انہیں نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد دی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ان کی سربراہی میں آئی ایس آئی کا ادارہ ملک کے لیے اہم خدمات سرانجام دینے کا کام بہتر انداز میں جاری رکھے گا۔
ادھر پاکستانی فضائیہ کے نئے سربراہ ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ نے بھی فضائی دستوں کی کمان سنبھال لی ہے۔ سبکدوش ہونے والے ایئر مارشل راؤ قمر سلیمان نے ایک تقریب کے دوران یہ ذمہ داریاں ان کے حوالے کیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں