وزیرستان کےبچے اپنا بچپن کھو رہے ہیں
31 جنوری 2014پاکستان کے قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کہیں بم دھماکے، فوجی آپریشن یا ڈرون حملے ہوتے ہیں تو کہیں بچوں کے سکول دہشت گردی کے نذر ہوجاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان واقعات کے چھوٹے بچوں کے ذہنوں پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور حالات کے پیش نظر وہ گھروں کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے بارہ سالہ نوراللہ، جو ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنی پڑھائی کو ہمیشہ کے لئے خیرآباد کہہ چکے ہیں، کو ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں دوسرے عام لوگوں کی طرح وہ بھی دہشت گردی کا نشانہ نہ بن جائے۔ اس بچے کا کہنا ہے کہ اس نے نا صرف سکول جانا چھوڑ دیا ہے بلکہ اب کھیل کود کے لئے بھی کم ہی باہر نکلتا ہے ’’ ہمارے علاقے کے حالات بہت خراب ہیں، اب ہم لوگ سکول نہ تو جاسکتے ہیں اور نہ ہی باہر کھیلنے جاتے ہیں، پہلے تو ہم گراونڈ میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے تھے لیکن اب دھماکوں کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔‘‘
نوراللہ کا مزید کہنا ہے کہ اگر چہ بہت عرصہ ہو چکا ہے کہ وہ سکول نہیں جارہا لیکن پھر بھی اگر ان کے علاقے کے حالات معمول پر آگئے تو وہ دوبارہ اپنی پڑھائی شروع کر دےگا۔
شمالی وزیرستان کے رہائشی جانس خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موجودہ حالات کی وجہ سے ان کے بچے ذہنی مریض بن چکے ہیں اور ان کے زندگی کا ہر ایک پہلو متاثر ہوا ہے۔ خود ایک باپ ہوکر ان کو ہر وقت یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے ذیادہ دیر باہر نہیں رہنے دیتے۔ انہوں نے بتایا ’’ بچوں کے ذہن میں یہ ڈر بیٹھا ہوا ہے کہ آج پھر ڈرون حملہ ہوگا، آج پھر فائرنگ ہوگی اور ہم پھر لاشیں دیکھیں گے، ان کے ذہن میں صرف یہی خوف بیٹھا ہوا ہے، باقی جو زندگی کے دوسرے معاملات ہیں، جیسا کہ خوشیاں اور کھیل کود، ان کے بارے میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے، ان کے ذہنوں میں صرف خوف ہی خوف ہے۔‘‘
جانس خان نے مزید کہنا تھا کہ ان کے بچوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے ان کا اپنا چھ سالہ بیٹا اکثر نیند میں ڈر جا تا ہے اور دھماکے یا دوسرے نا خوشگوار واقعات کے بعد ان کو بھی گھر سے باہر نکلنے سے روکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امن ومان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بعض کم سن بچے شدت پسند گروہوں میں بھی شمولیت اختیار کر رہے ہیں جو کہ ایک تشویش کی بات ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سعدیہ شفیق کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بچوں کے ناپختہ ذہن ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کے واقعات سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ان بچوں کے بچپن ہی میں سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہوکر نفسیاتی مریض بن جانے کے خدشات ہیں۔ ڈاکٹر صادیہ کا مزید کہنا ہے ''ہم ذیادہ تر دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات سے بچوں کو گھبراہٹ ہوتی ہے، وہ سکول جانے سے انکاری ہو جاتے ہیں، بے وجہ روتے ہیں، باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں اور اپنے والدین کو بھی باہر جانے سے روکتے ہیں، اور اس کے علاوہ ان کی نیند کی بہت متاثر ہوتی ہے۔‘‘
دانش بابر، پشاور
ادارت: عابد حسین