1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرانسپیرنٹ سولر پینل: ماحول دوست جدید ٹیکنالوجی

16 اپریل 2023

ٹرانسپیرنٹ سولر پینل سورج کی روشنی سے بجلی تیار کرنے کا ایک جدید طریقہ ہیں جسے عمارتوں میں شیشے کی کھڑکیوں میں لگایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Q4GN
تصویر: Nic Bothma/dpa/picture alliance

ٹرانسپیرنٹ سولر پینل سورج کی روشنی سے بجلی تیار کرنے کا ایک جدید طریقہ ہیں جسے عمارتوں میں شیشے کی کھڑکیوں میں لگایا جا رہا ہے۔

ٹرانسپیرنٹ سولر ٹیکنالوجی کیا ہے؟

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں شعبۂ مکینیکل انجینئرنگ کے استاد ذیشان سکندر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرانسپیرنٹ سولر پینل ایک جدید کٹنگ ایج ٹیکنالوجی ہے جو عمارتوں کی کھڑکیوں یا کسی بھی گلاس سے بنی سطح پر پڑنے والی سورج کی روشنی کو اکھٹا کر کے اسے برقی رو میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ گھروں، دفتروں، شاپنگ مالز اور دیگر عمارتوں کی کھڑکیوں کے عالوہ سن پروف کاروں یہاں تک کہ موبائل فون کی سکرین کو بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ذیشان کے مطابق دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی کو گیم چینجر سمجھا جا رہا ہے جو عمارتوں کو "توانائی استعمال کنندہ" سے "توانائی پیدا کنندہ " میں تبدیل کرتی ہے ۔ یہ اپنی ضروریات کے لیے توانائی کھڑکیوں کے ذریعے از خود تیار کرتی ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ روایتی سولر سیلز کے بر عکس ان کے لیے کسی خاص زاویے سے روشنی کا پڑنا ضروری نہیں ہوتا نہ ہی تنصیب کے لیے علیحدہ سے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ٹرانسپیرنٹ سولر انرجی ماحول دوست ہے، جو ایک جانب کاربن کی مقدار گھٹانے میں معاونت کر رہی ہے تو دوسری جانب دیگر توانائی کے ذرائع کی نسبت اس کے مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے۔

ٹرانسپیرنٹ سولر سیل کیسے کام کرتے ہیں؟

ذیشان سکندر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرانسپیرنٹ سولر انرجی کو "یو ای پاور" یا "فوٹو وولٹیک گلاس" بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس پر خاصی تحقیق ہو رہی ہے اور سائنسدان اس کے نئے ماڈلز متعارف کرا رہے ہیں، جن میں زیادہ تر سورج کی روشنی کو مرتکز کرنے والے سیل ہیں جو الٹرا ویولٹ اور انفرا ریڈ روشنی کو جذب کر کے انھیں برقی رو میں تبدیل کرتے ہیں۔

ان ٹرانسپیرنٹ سولر پینل کی کارکردگی کا انحصار ان کی شفافیت پر ہے۔ پینل جتنے زیادہ شفاف ہوں ان کی افادیت اتنی کم ہوتی ہے۔

دنیا میں ٹرانسپیرنٹ سولر پینل کا بڑھتا استعمال

جدید گھروں اور دفتروں میں شیشے کی دیواروں اور کھڑکیوں کا رواج بڑھ رہا ہے۔ اس سے عمارتیں نا صرف خوشنما لگتی ہیں بلکہ دن کے اوقات میں سورج کی مناسب روشنی پڑنے سے بجلی کی بچت بھی ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں 5 سے 7 بلین مربع میٹر رقبہ گلاس سے ڈھکا ہوا ہے جہاں فوٹو وولٹیک سیل کے ذریعے با آسانی بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔

سن 2014 میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی نے ایک مکمل ٹرانسپیرنٹ کنسینٹریٹر (روشنی کو مرتکز کرنے والا آلہ) ایجاد کیا تھا، جو کسی بھی گلاس شیٹ یا شیشے کی کھڑکی کو فوٹو وولٹیک سیل میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سن 2020 میں امریکہ اور یورپ کے سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے ایسے ٹرانسپیرنٹ سولر سیل تیار کیے جو 100 فیصد شفاف تھے۔ ان کے استعمال سے عمارتیں اپنی توانائی کی نصف ضروریات از خود پوری کر سکتی ہیں جس سے ان ممالک کے لیے "کاربن نیٹ زیرو" کا حدف حاصل کرنا قدرے آسان ہو جائے گا۔

 پاکستان میں شمسی توانائی کا استعمال

سن  2022 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موسم گرما میں تقریبا 27000 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بجلی کی کل پیداوار صرف 19000 میگا واٹ ہے۔

طلب و رسد میں اس نمایاں فرق کی وجہ سے پورے ملک میں 7 سے 8 گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ معمول ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں شہریوں کے پاس واحد حل یو پی ایس اور سولر پینل ہیں۔

دنیا بھر میں عمارتوں میں گلاس کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے
دنیا بھر میں عمارتوں میں گلاس کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہےتصویر: leungchopan/YAY Images/IMAGO

اگرچہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں سارا سال بھرپور دھوپ پڑتی ہے، اس کے باوجود یہاں توانائی کے قابل تجدید ذرائع میں شمسی توانائی جگہ نہیں بنا پائی۔ سن 2022 میں جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کے نظام میں صرف 430 میگاواٹ شمسی توانائی فراہم کی جا رہی ہے، جسے 2030 تک 30 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس ہدف کے حصول میں ٹرانسپیرنٹ سولر ٹیکنالوجی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ فلایر خان 'سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘اسلام آباد میں ریسرچ فیلو ہیں انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں شمسی توانائی کے شعبے میں پیش رفت انتہائی سست ہے جس کی بڑی وجہ حکومت کی اس حوالے سے غیر واضح پالیسیاں ہیں۔ جبکہ بجلی کا نیشنل گرڈ بھی سولر ٹیکنالوجی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

فلایر کے مطابق ٹرانسپیرنٹ سولر ٹیکنالوجی دنیا بھر میں ایک ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے جو روایتی سولر سیل سے کہیں بہتر ہے۔ چین اور بھارت میں اس پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے۔

پاکستان میں شمسی توانائی کی ضرورت اور چیلنجز

پاکستان میں بھی سولر گرپ اور پریمئیر انرجی جیسی کمپنیاں ٹرانسپیرنٹ اور بائی پولر سولر پینل فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستانی حکومت اگر ان کے درآمدی آلات کی لوکلائزیشن پر توجہ دے کر ٹیرف پالیسی پر نظر ثانی کرے تو زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو ملک میں لایا جا سکتا ہے۔

صارفین کیا کہتے ہیں؟

محمد یاور حسین پشاور یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے لیکچرر ہیں۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا زیادہ تر کام لیب بیسڈ ہے جس میں بجلی کی یومیہ کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے خلل پڑتا ہے اور گھر میں کام پورا کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

یاور بتاتے ہیں کہ انھوں نے چند برس قبل ہی گھر بنوایا ہے اور اس میں سولر سسٹم لگوانےکے لیے کوشاں ہیں۔ اگرچہ مہنگائی کے دور میں 7 سے 8 لاکھ تک کے اخراجات کرنا ناممکن نظر آرہا ہے مگر وہ لوڈ شیدنگ اور بجلی کے بلوں سے بھی شدید تنگ آچکے ہیں۔

یاور کے مطابق پاکستان میں ٹرانسپیرنٹ اور بائی پولر سولر سیل آہستہ آہستہ جگہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا، ''بہتر ہے کہ نیا گھر بناتے وقت پلاننگ میں ان کی تنصیب شامل کی جائے کیونکہ گھر بناتے وقت لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور وہ مستقبل کے مسائل کو سامنے رکھ کر گھر ڈیزائن کراتے ہیں۔‘‘

اگر حکومت اس جانب توجہ دے اور ٹرانسپیرنٹ سولر کھڑکیوں کی تنصیب کے لیے عوام کو مناسب شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں تو متوسط طبقے کو کافی ریلیف ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی لوڈ شیدنگ میں بھی کمی آئے گی اور کول پاور پلانٹس کی بندش کی راہ ہموار ہوگی جو پاکستان میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔