1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ دور میں ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات ممکن ہیں، بلنکن

19 دسمبر 2024

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کو کہا کہ تہران کے لیے جوہری ہتھیار بنانا ناممکن نہیں ہے اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ایران کے ساتھ اس سلسلے میں بات چیت کی گنجائش موجود ہے۔

https://p.dw.com/p/4oM3m
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکنتصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AP Photo/picture alliance

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کو کہا کہ تہران کے لیے جوہری ہتھیار بنانا ناممکن نہیں ہے اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ایران کے ساتھ اس سلسلے میں بات چیت کی گنجائش موجود ہے۔

سبکدوش ہونے والے اعلیٰ امریکی سفارت کار بلنکن نے اعتراف کیا کہ مسلم عالم دین کے زیر انتظام ریاست ' ایران‘ خطے میں اپنی فوج کو پہنچنے والے دھچکوں کے بعد جوہری ہتھیار بنانے پر زیادہ سنجیدگی سے غور کر سکتی ہے۔

ایران کو لگنے والے دھچکے

 اسرائیل کی فوج نے ایرانی فضائی دفاع کو نشانہ بنایا اور اس کے لبنانی اتحادی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو کمزور کیا۔ اُدھر شام میں اس کے اہم عرب اتحادی بشار الاسد کے خلاف بغاوت اور ان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ایران مشرق وسطیٰ کے خطے میں کافی حد تک کمزور ہو گیا ہے۔

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا،''مجھے نہیں لگتا کہ ایران کے لیے جوہری ہتھیار ناگزیر ہے۔‘‘ امریکی سفارت کار بلنکن نے یہ بیانات نیو یارک میں خارجہ تعلقات کی کونسل میں دیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''جیسا کہ وہ (ایران) مختلف دفاعی محاذوں پر کمزور ہو چکے ہیں، یقینی طور پروہ جوہری ہتھیار سازی کے بارے میں سوچے گا۔‘‘

ایران کے تین یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات جمعے کے روز

انٹونی بلنکن نے تاہم یہ بھی کہا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے نتائج سے بخوبی واقف ہے۔ اس تناظر میں بلنکن نے کہا،''میرے خیال میں ایران اور امریکہ کے درمیان اس سلسلے میں مذاکرات کا امکان موجود ہے۔‘‘

اسرائیل سے متصل لبنانی سرحد پر واقع عمارت کا ملبہ
فلسطین کے بعد رواں سال لبنان کی تباہی ایران کے لیے بڑا دھچکہ ثابت ہوئیتصویر: Stoyan Nenov/REUTERS

واضح رہے کہ تہران حکومت بارہا جوہری ہتھیار بنانے کی تردید کرتے ہوئے کہہ چُکی ہے کہ اس کا جوہری پروگرام  پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا صدارتی دور

امریکہ کے ریپبلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران 2015 ء میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے يکطرفہ طور پر عليحدگی اختيار کر لی تھی۔ یہ وہ معاہدہ تھا جو سابق امریکی صدر اور ڈیموکریٹ لیڈر باراک اوباما کے دور میں طے پایا تھا۔ ٹرمپ نے معاہدے سے امریکی دستبرداری کے بعد ایران پر سخت ترين پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ انٹونی بلنکن نے اپنے تازہ بیان میں یہ بھی کہا کہ،‘‘صدر ٹرمپ نے آخری بار ڈیل سے دستبرداری کے بارے میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ ایک مضبوط اور بہتر ڈیل طے ہو۔‘‘

جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان

مسک کی ایرانی سفیر سے ملاقات، کشیدگی کم کرنے کی سمت قدم: رپورٹ

'امریکہ کبھی بھی ایران کو جوہری ہتھیار کی اجازت نہیں دے گا‘

سبکدوش ہونے والے اعلیٰ امریکی سفارت کار انٹونی بلنکن نے واضح الفاظ میں کہا کہ، ''کوئی بھی امریکی انتظامیہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘

 ایران کو جوہری ہتھیار سازی سے روکے رکھنے کے بارے میں بلنکن نے مزید کہا، ''کسی نہ کسی طرح، مجھے یقین ہے کہ جو ہماری انتظامیہ کی پالیسی تھی، وہی اگلی انتظامیہ کی بھی ہو گی۔‘‘

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے معاملات سنبھالنے کے بعد جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کی تھی تاہم یہ بڑی حد تک ایران پر امریکی پابندیوں میں ریلیف کے بارے میں تنازعات  کے سبب ختم ہو گئی ۔ علاوہ ازیں بائیڈن نے 7 اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے فلسطینی مسلح گروپ کا ساتھ دینے کی وجہ سے ایران پر دباؤ کی حمایت کی۔

 

بائیڈن ایران کے جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے حق میں نہیں

شام میں ایران کے حامی سابق صدر بشار الاسد اور ان کی برطانیہ میں پیذا ہونے والی شریک حیات
شام میں اسد حکومت کا خاتمہ ایران کے لیے تشویش کا باعثتصویر: Balkis Press/ABACAPRESS/picture alliance

کیا امریکہ ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا حصہ بنے گا؟

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ارب پتی اتحادی ایلون مسک نے مبینہ طور پر امریکی انتخابات کے بعد ایک اعلیٰ ایرانی عہدیدار سے ملاقات کی تھی تاکہ امن کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

 بلنکن نے امریکہ کی جانب سے ایران کی حکومت کو گرانے کے لیے کام کرنے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ ایران سن 1979 میں ایک عوامی بغاوت میں اپنے امریکی حمایت یافتہ حکمران کا تختہ الٹنے کے بعد سے واشنگٹن کی مخالفت کرتا آیا ہے۔

یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں

کملا ہیرس ایران سے کیسے نمٹیں گی؟

 بلنکن کے بقول، ''میرے خیال میں اگر ہم گزشتہ 20 سالوں پر نظر ڈالیں تو مختلف حکومتوں کی تبدیلی سے متعلق تجربات قطعی طور پر شاندار کامیابیوں سے ہمکنار نہیں ہوئے۔‘‘ انٹونی بلنکن نے گرچہ ایران کے موجودہ مسلم عالم دین کے زیر انتظام ریاستی ڈھانچے کے خلاف داخلی مخالفت کو تسلیم کیا، لیکن ان کا کہنا تھا، ''یہ بہت واضح نہیں ہے۔‘‘

 انہوں نے ایران کے شہروں اور دیہی علاقوں کے درمیان فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن ''کم از کم نصف آبادی کی عکاسی کرتی ہے، لیکن پوری آبادی کی نہیں۔‘‘

 انہوں نے کہا، ''ایران میں ایک بہت قدامت پسند عنصر موجود ہے جو تعداد کے اعتبار سے تہران حکومت کے لیے بہت اہم ہے اور وہ اس کی ممنون بھی ہے۔‘‘

ک م/ ع س (اے ایف پی)